گزشتہ 5/6 سال کے دوران شرح نمو کم ہونے سے سالانہ 30 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں،2008ء میں درمیانہ طبقہ 45 فیصد تھا جو اب 35فیصد سے کم ہوگیا ، 40 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں ، جنوبی پنجاب کے 20لاکھ بے روزگار نوجوان جرائم کی دلدل میں گھر چکے،پاکستان میں بے روزگاری کی حقیقی شرح 10فیصد ، حکومت 6فیصد کہتی ہے، شماریات بیورو کے اعداد و شمار ناقابل اعتماد ہیں، گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 10سے 11ارب ڈالر کے قرضے لئے، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بجلی کے نرخوں میں 15 فیصد اضافہ ہوا، عالمی مارکیٹ میں گراوٹ کے نتیجے میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 6فیصد کم ، بھارت میں 12فیصد کم ہوئیں، پاکستان میں 30فیصد ٹیکس پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے، جولائی تا ستمبر 2014 کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 3فیصد رہی، ایس آر اوز کے خاتمے کے باوجود سیلز ٹیکس وصولی میں صرف 2فیصد اضافہ ہوا، جاری اخراجات 20فیصد بڑھے، اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 30فیصد ، تجارتی خسارے میں تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، (ن) لیگ کے منشور میں منافع بخش اداروں کی نجکاری کا کوئی تذکورہ موجود نہیں،

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا کارواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی جائزہ رپورٹ پیش کرنے کے موقع پر خطاب

جمعرات 20 نومبر 2014 21:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20نومبر 2014ء) سابق وزیر خزانہ اور انسٹی برائے پالیسی ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا نے کہا ہے کہ گزشتہ 5/6 سال کے دوران شرح نمو کم ہونے کی وجہ سے سالانہ 30 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں،2008ء میں درمیانہ طبقہ 45 فیصد تھا جو اب 35فیصد سے کم ہوگیا ہے، 40 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے 20لاکھ بے روزگار نوجوان جرائم کی دلدل میں گھر چکے،پاکستان میں بے روزگاری کی حقیقی شرح 10فیصد جبکہ حکومت 6فیصد کہتی ہے، شماریات بیورو کے اعداد و شمار ناقابل اعتماد ہیں، گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 10سے 11ارب ڈالر کے قرضے لئے، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بجلی کے نرخوں میں 15 فیصد اضافہ ہوا، عالمی مارکیٹ میں گراوٹ کے نتیجے میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 6فیصد کم جبکہ بھارت میں 12فیصد کم ہوئیں، پاکستان میں 30فیصد ٹیکس پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے، جولائی تا ستمبر 2014ء کے دوران جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 3فیصد رہی، ایس آر اوز کے خاتمے کے باوجود سیلز ٹیکس وصولی میں صرف 2فیصد اضافہ ہوا، جاری اخراجات 20فیصد بڑھے، اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 30فیصد جبکہ تجارتی خسارے میں تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، (ن) لیگ کے منشور میں منافع بخش اداروں کی نجکاری کا کوئی تذکورہ موجود نہیں۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی جائزہ رپورٹ پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 4فیصد شرح نمو حاصل کی تاہم رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران صنعتی شعبے کی شرح نمو ادارہ شماریات نے نہیں بتائی حالانکہ جولائی تا ستمبر 2014ء کے دوران مجموعی طور پر جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 3فیصد رہی، بجلی کی پیداوار میں 2.8فیصد ہوا جبکہ بجلی کے نرخوں میں 15فیصد اضافہ کیا گیا، حکومتی ترجیحات کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں پن بجلی اور گیس کا حصہ کم ہوا، سر مایہ کاری صرف 15 کروڑ ڈالر ہوئی جو کہ انتہائی کم ہے جبکہ وزارت خزانہ نے ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 60ارب روپے جاری کئے جو سالانہ ترقیاتی بجٹ کا 8فیصد بنتا ہے، البتہ اس عرصے میں مہنگائی کی شرح 8.2فیصد سے کم ہو کر 7.5فیصد پر آ گئی جبکہ اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 5.8 فیصد رہی، ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا نے کہا کہ دنیا بھر میں گندم کی قیمت 20فیصد کم ہوئی ہے ، اس کے برعکس حکومت نے گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر 1300روپے فی من کر دی ہے۔

جولائی تا ستمبر 2014ء کے دوران کپاس کی قیمت میں20فیصد کمی ہوئی، کولیشن سپورٹ فنڈ کی دو اقساط ملنے سے ادائیگیوں میں توازن آیا تاہم آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے اب بھی حکومت کو فنڈز دینے سے ہچکچا رہے ہیں، تین ماہ میں ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولیوں میں 14فیصد اضافہ ہوا جبکہ سالانہ ریونیو ہدف حاصل کرنے کیلئے ٹیکس وصولیوں میں 24فیصد اضافہ درکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں ایس آر اوز کے خاتمے کے باوجود پہلی سہ ماہی کے دوران سیلز ٹیکس کی وصولی میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 16فیصد اضافہ ٹیکس ریفنڈ کلیم روک کر کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جولائی تا ستمبر 2014ء کے دوران جاری اخراجات میں 20فیصد، اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں31فیصد اضافہ ہوا جو افسوسناک ہے۔

تجارتی خسارہ 3 ارب ڈالر بڑھا، نیپرا نے بجلی پر 50پیسے فی یونٹ ایکولائزیشن سرچارج ادا کیا، گندم کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے افغانستان نے ہم سے گندم خریدنا بند کر دی ہے۔ سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 6سے 6.5فیصد تک رہے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5/6 سال کے دوران شرح نمو کم رہنے کی وجہ سے معیشت کے مثبت ثمرات عوام تک نہیں پہنچے جس کے نتیجے میں سالانہ 30لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں، 2008ء سے پاکستان میں درمیانہ طبقہ کم ہو رہا ہے جو اس وقت ملک یآبادی کا 45فیصد تھا، اب 35فیصدسے بھی کم ہو گیا ہے، ملک میں 40 فیصد نوجوان بے روزگار، جنوبی پنجاب میں 20لاکھ بے روزگارنوجوانمجرمانہ سر گرمیوں کی لپیٹ میں آچکے ہیں جبکہ پاکستان میں بے روزگاری کی حقیقی شرح 10فیصد ہے لیکن حکومت 6فیصد مانتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار قابل بھروسہ نہیں۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران 10/11ارب ڈالر قرضہ لیا، تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 6فیصد جبکہ بھارت میں 12فیصد کم ہوئیں۔