پاکستان کو جعلی ادویات کی جنت بننے سے روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں،سالانہ 431ارب ڈالر کی جعلی ادویات سات لاکھ اموات کا سبب بنتی ہیں،ناقص قوانین جعلی ادویات بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کافی ہیں

پاکستان اکانومی واچ کے صدر مرتضیٰ مغل کابیان

اتوار 23 نومبر 2014 17:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تاز ترین۔ 23نومبر 2014ء ) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ پاکستان کو جعلی ادویہ کی جنت بننے سے روکنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بکنے والی ادویہ میں سے تیس سے چالیس فیصد جعلی ہیں اور جعلی ادویہ بنانے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر تیرھواں ہے۔

عام پاکستانی صحت کے بجٹ کا 77فیصد ادویات کی خریداری پر خرچ کرتا ہے جس میں سے بڑی تعداد جعلی ادویات کی ہوتی ہے جن کی اکثریت کراچی،لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں بنائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دنیا میں مختلف ممالک میں سالانہ 431ارب ڈالر کی جعلی ادویات بنائی جاتی ہیں جن میں سرفہرست بھارت اور چین ہیں جبکہ جعلی ادویات امریکہ برامد کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر دسواں ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں سالانہ دو سو ارب کی ادویات فروخت ہوتی ہیں جبکہ رجسٹرڈ فارماسسٹس کی تعداد چار ہزار اور غیر رجسٹرڈ کی تعداد اس سے پچیس گنا زیادہ ہے۔پاکستان کی پچاس سال سے زیادہ عمرکے نصف افراد بلڈ پریشر کا شکار ہیں جنکی تعدار 2030تک 11.4ملین ہو جائے گی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں جعلی ادویات کا تناسب ایک فیصد اور ترقی پریز ممالک میں تیس فیصد تک ہے جس سے سالانہ سات لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ڈاکٹر مغل کے مطابق ناقص قوانین اور معمولی سزائیں جعلی ادویات بنانے والوں کی حوصلہ افزائی اورایمانداری سے کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لئے کافی ہیں۔

متعلقہ عنوان :