حکومت غذائی اجناس کے ذخیرے اور پیکجنگ کیلئے اقوام متحدہ کی گائیڈ لائنز کے تحت جوٹ کے تھیلوں کو فروغ دے،محمد یونس،

جوٹ کے تھیلوں کے استعمال سے حکومت کو غذائی تحفظ اور عوام کی صحت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی،سیکرٹری پی جے ایم اے

جمعہ 28 نومبر 2014 23:12

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28نومبر 2014ء) پاکستان جوٹ ملز ایسوسی ایشن (پی جے ایم اے) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غذائی اجناس کے ذخیرے اور دیگر پیکجنگ استعمال کے لیے اقوام متحدہ کی گائیڈ لائنز کو استعمال کرتے ہوئے جوٹ کے تھیلوں کو فروغ دے اس سے حکومت کو غذائی تحفظ اور عوام کی صحت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔سیکریٹری پی جے ایم اے محمد یونس نے وزارت نیشنل فوڈ اینڈ سیکورٹی ریسرچ (این ایس ایف آر) کو اپنے خط میں اجاگر کیا کہ سائنسی بنیاد پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پلاسٹک کے تھیلے نہ تو زمین میں حل پزیر ہیں اور نہ ہی ان کی ری سائیکلنگ ممکن ہے کیونکہ اس دوران یہ کینسر کے حامل زہریلے مادے خارج کرتے ہیں ۔

یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ وزارت فوڈ سیکورٹی کے اعلیٰ عہدیدار اب تک گندم کے ذخیرے کے لیے اس کو مناسب خیال کرتے ہیں جو کہ عالمی معیارات اور صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پولی پروپلین پلاسٹک بیگز لاکھوں لوگوں کی صحت کو خطرات میں ڈالتے ہیں اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں پولی پروپلین کے استعمال کو صحت کو درپیش خطرات کی وجہ سے کم سے کم استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے جوٹ کے استعمال کو بہترین تجویز کیا گیا ہے۔پاکستان میں غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے 180 ملین تھیلوں کی ہر سال ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے 60 ملین مقامی طور پر تیار کئے جاتے ہیں جبکہ باقی طلب پرانے جوٹ بیگ سے پوری کی جاتی ہے جو کئی مرتبہ استعمال کے بعد بھی قابل استعمال ہوتے ہیں۔ جوٹ انڈسٹری حکومتی خزانے میں ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں 800 ملین روپے ادا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ جوٹ صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ، اس صنعت کا شمار پاکستان کی ان صنعتوں میں ہوتا ہے جو عوام کو سب سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر پولی پروپلین بیگ کا استعمال ٹرانسپورٹیشن کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ گندم یا دیگر غذائی اجناس کے لیے مضر رساں ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ محدود وقت کے بعد اس کے نقصانات سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

ایک اسکالر کی حالیہ تحقیق کے مطابق جوٹ بیگز پولی پروپلین تھیلوں کے مقابلے میں غذائی ذخیرے کیلئے زیادہ سود مند ہیں اس سے غذائی اجناس کا معیار برقرار رہتا ہے۔ گندم کے تھیلوں میں اگر ہوا کا گزر نہ ہو تو گندم کا معیار برقرار نہیں رہ سکتا جبکہ جوٹ بیگ کے برعکس پولی پروپلین پلاسٹک کے تھیلوں میں ہوا کا بالکل گزر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جوٹ بیگ غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے قدرتی ذریعہ ہے۔

گندم پنجاب، اپر سندھ اور سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ذخیرہ کی جاتی ہے جہاں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ اور ہوا میں نمی کا تناسب 75 فیصد تک پہنچ جاتا ہے ، رپورٹ کے مطابق گندم کے اجزاء ذخیرے کے دوران حرارت خارج کرتے ہیں اور ان میں تنفس کا عمل پایا جاتا ہے ۔ گندم کاربن ڈائی آکسائڈ اور نمی خارج کرتے ہیں۔ اگر نمی کے اثرات فوری خارج نہ کئے جائیں تو گندم خراب ہوجاتی ہے اور اس میں پھوپندی لگ جاتی ہے۔

پولی پروپلین پلاسٹک کے بیگ میں ہوا کا گزر ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے ان تھیلوں میں گندم کے ذخیروں سے فصل کو نقصان اور خرابی کی سطح کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں گندم اور دیگر غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے جوٹ کے تھیلوں کو موزوں قرار دیا گیا ہے۔ جوٹ کے تھیلوں میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ وہ اجناس اور دیگر غذائی اشیاء کے ذخیرے کو زیادہ عرصے تک اور ہر ماحول میں محفوظ اور معیار کو برقرار رکھتے ہیں۔

اس حقیقت کو پڑوسی ملکوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور وہاں جوٹ کے تھیلوں کو قانون سازی کے ذریعے لازمی پیکجنگ میٹیریل قرار دیا گیا ہے جبکہ غذائی اجناس کے لیے جوٹ کا استعمال لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ حکومت نہ صرف یونائٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام کو نظر انداز کررہی ہے جو اجناس کے ذخیرے کے لیے پلاسٹک بیگ پر پابندی کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ عوام کی صحت کیلئے بھی خطرات کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک نے غیر غذائی اشیاء کے لیے بھی ان کا استعمال محدود کردیا ہے اس لیے ان کی تیاری ان میں غذائی اجناس کے ذخیرے کا کوئی جواز ممکن نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :