بلوچستان اسمبلی، ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل ،کوئٹہ میں پولیو ورکرز کی ٹارگٹ کلنگ، فضل الرحمان پر خودکش حملہ، مسیحی جوڑے کو زندہ جلا نے کے واقعات کی شدید مذمت ،

مشترکہ مذمتی قرار داد کی منظوری

ہفتہ 29 نومبر 2014 22:48

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 29نومبر 2014ء ) بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنماء ممتاز عالم دین سابق سینیٹر ڈاکٹر خالد سومرو کے بہیمانہ قتل ،کوئٹہ میں پولیو ورکرز کی ٹارگٹ کلنگ، مولانا فضل الرحمان پر ہونیوالے خودکش حملہ اور کوٹ رادہ کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلادینے کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مشترکہ مذمتی قرار داد کی منظوری دے دی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس قائمقام اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ہوا اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان سردار عبدالرحمن کھیتران ، حاجی گل محمد دمڑ ، مولوی معاذ اللہ ، حاجی عبدالمالک کاکڑ، مفتی گلاب ، محترمہ رؤف، حسن بانو کی جانب سے سکھر میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنماء ڈاکٹر خالد سومرو کے بہیمانہ قتل اور گزشتہ دنوں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملہ کیخلاف قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع نے مشترکہ مذمتی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہفتے کی صبح نماز فجر کے موقع پر ممتاز عالم دین اور جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر خالد سومرو کو مسجد کے اندر شہید کیا گیا جبکہ اس سے قبل 23 اکتوبر کو کوئٹہ میں مفتی محمود کانفرنس کے اختتام پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملہ کیا گیا اس سے پہلے بھی ملک کے کئی معروف اور ممتاز علماء کو ٹارگٹ کیا گیا ہے یہ ایوان اس بزدلانہ اور انسانیت سوز واقعات کی مذمت کرتا ہے اور نیز ملک میں انتشار پھیلانے کی اس سازش میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی مطالبہ کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ اس وقت ملک میں ہر طرف دہشت گردی ہے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے علماء سمیت سیاستدانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے مولانا فضل الرحمن پر کوئٹہ میں خودکش حملہ کیا گیا اس وقت سیکورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص تھے اور حملے کے بعد اب تک ملزمان کا بھی پتہ نہیں چلایا جاسکا ذمہ داری لینے والوں کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ملک بہت بڑے سانحہ سے دوچار ہوسکتا ہے لہذا عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر خالد سومرو کا قتل ایک سانحہ ہے 6 سال تک وہ سینٹ میں میرے ساتھ رہے وہ ایک جمہوری اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان تھے ان پر حملہ ہم سب کے لئے تکلیف دہ ہے حکومتی ارکان اپوزیشن کے اس دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں سیاسی کارکنوں کی قتل سے جمہوریت اور ملک کو نقصان پہنچا ہے ۔

وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات قابل مذمت ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں حفاظتی ٹیکہ جات لگانے والے ایک مرد اور تین لیڈی ہیلتھ ورکروں کو جس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا وہ قابل مذمت ہے جنہوں نے یہ عمل کیا وہ انسانیت اور اس صوبے کے عوام کی دشمن ہیں یہ لوگ ہمارے صوبے کو اپاہج کرنے پر تلے ہوئے ہیں پولیو سے بچے معذور ہورہے ہیں جو ملک ، معاشرے اور خاندان کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں ہم سب نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ایسے معاملات کو کنٹرول کرنا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ اس مذمتی قرارداد میں لیڈی ہیلتھ ورکر پر حملے سے متعلق مذمت بھی شامل کی جائے ۔ صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملے اورڈاکٹر خالد سومرو کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر خالد سومرو ایک سیاسی کارکن کے علاوہ سینیٹ کے ممبر بھی رہے جس بے دردی سے شہید کیا گیا یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ان کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور یہ ایوان اس دکھ درد میں ان کی پارٹی اور خاندان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جس مشکل وقت میں ہم جہاں پناہ لیتے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں رہے مقدس مقامات خون سے رنگے ہوئے ہیں پتہ نہیں ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں دہشت گرد کسی رحم کے قابل نہیں پورا ملک کو دہشت گردی کے ان واقعات کا نوٹس لینا چاہیے اور ان کی روک تھام کے لئے کردارا دا کرنا چاہیے اگر دہشت گردی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک اور معاشرے کا چلنا مشکل ہوجائے گا ۔

پولیو ٹیم پر حملے سے متعلق انہوں نے کہا کہ بے گناہ اور غریب بچیوں کو جس بہیمانہ انداز سے قتل کیا گیا وہ قابل مذمت ہے غریب بچیاں گھر گھر جاکر ہمار ے بچوں کو اپاہج سے بچانے کے لئے کام کررہی تھی جنہیں نشانہ بنایا گیا انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھ نہیں بلکہ امن کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ سردار اسلم بزنجو نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جس روز جے یو آئی کے سربراہ پر خود کش حملہ ہوا اس روز جے یو آئی کے کارکنوں کی قیادت اور ورکروں نے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو کنٹرول میں رکھا اور شہر کو خون خرابے سے بچایا ۔

انہوں نے کہاکہ خالد سومرو پر حملہ گہری سازش ہے اسی طرح کوئٹہ میں بھی ایک ورکر پر حملہ المیہ سے کم نہیں ۔ انٹیلی جنس ادارے اور پولیس کو ہر لحاظ سے چوکس رہنا چاہیے کیونکہ دہشت گرد عوام کو دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں ۔ شیخ جعفر خان مندوخیل نے خود کش اور قاتلانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد کا کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی لیڈر کو مار کر عوام کو آپس میں دست وگریباں کرنا ہے ۔

خالد سومرو ایک عالم اور سیاسی رہنماء تھے ان کی شہادت سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے ملک میں کافی عرصے سے سیاسی قیادت اور علماء کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ان معاملات کی ہمیں سختی سے نوٹس لینا چاہیے ۔ پورا ملک دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح کوئٹہ میں پولیو ورکرز بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچانے کے لئے کام کررہی تھیں کہ دہشت گردوں نے انہیں بھی نہیں بخشا پتہ نہیں وہ غریب عورتوں اور لوگوں کو مار کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔

کسی مذہب میں خواتین ، بچوں یا عام لوگوں کو مارنے کا حکم نہیں ، اسلام کے نام پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے دراصل خود اسلام کو بدنام کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات کی دہشت گردی ہماری ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس آج ہمارے گھروں تک پہنچ گئی ہے ۔ سردار ثناء اللہ زہری نے مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملے اور ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک گہری سازش ہے اور ملک میں سیاستدان سمیت کوئی شہری محفوظ نہیں ، کوئٹہ میں پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا گیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔

انہوں نے کہاکہ حالات کے ذمہ دارہم بھی ہیں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ہم حالات کو کنٹرول نہیں کرسکے ۔ سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ جس دن مولانا فضل الرحمن پر حملہ ہوا اور وہ میرے گھر آئے تو ا س وقت ان کی حالت قابل دید تھی ، وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس سب سے پہلے مولانا صاحب کے پہنچے اور اپنی بلٹ پروف گاڑی پیش کی جس پر میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر خالد سومرو ایک بڑے عالم تھے جنہیں آج صبح شہید کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے اورملک میں امن وامان کی صورحال خراب ہے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات نہیں کئے جارہے ہمارے صوبے میں حکومت بعض لوگوں کے لئے سخت جبکہ بعض لوگوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ، دعوے کئے جارہے ہیں کہ صوبے میں امن وامان کی حالت بہتر ہوگئی ہے لیکن سرعام سیاسی رہنماؤں اور پولیو ورکرز کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ایک بیوہ نے غربت کی حالت میں اپنی 2 بیٹیوں کو قربان کیا ۔

انہوں نے کہاکہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی ایک بیٹی جو اپاہج تھیں انہوں نے بڑے محفل میں کہا تھا کہ جس گھر میں اپاہج بچہ ہو تو حالت ان کے والدین سے پوچھا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ ضیاء الحق جیسا بندہ بھی اپاہج بچی کے لئے پریشان تھا ۔ شاہدہ رؤف نے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت علماء کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں کوئی شخص محفوظ نہیں مگر اب تو علماء بھی کسی کی شر سے محفوظ نہیں رہے افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر خالد سومرو کو مسجد میں شہید کیا گیا ۔

ہم سب کو پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کو روکنے کے لئے سوچنا چاہیے ، پولیو ورکرز پر حملے سے متعلق شاہدہ رؤف نے کہاکہ واقعہ کے وقت پولیس اہلکار موقع پر موجود رہے لیکن انہوں نے کوئی مدد نہیں ، حکومت انکوائری کرے اگر ایسا ہوا ہے تو ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر زمرک اچکزئی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر خالد سومرو کی شہادت ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔

انہوں نے کہاکہ کراچی میں ہمارے پارٹی کارکن ضیاء الحسن کی شہادت کی بھی مذمت کرنی چاہیے بعض عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے حالات خراب کررہے ہیں ملک کو اندورنی وبیرونی چیلنجز کا سامناہے نادیدہ قوتیں ناپاک عزائم کے لئے دہشت گردی پر اتر آئے ہیں جس کو ہم نے ناکام بنانا ہے ۔ ثناء اللہ زہری کے گھر ، خانوزئی میں لیویز اہلکاروں پر حملے اور ہزار گنجی میں عام شہریوں کے قتل جیسے واقعات کو روکنے کی ضرورت ہے ۔

ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ دہشت گردی گزشتہ 30 سالوں سے ہورہی ہے جنرل ضیاء الحق ، کرنل امام ، اختر عبدالرحمن نے عرب ، چائنا اور جاپان کے ساتھ مل کر خطے میں دہشت گردی کو پروان چڑھایا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی یہ لہر سٹیٹ کی جانب سے مسلط کی گئی ہے 7 اکتوبر 1983 کو پہلا دہشت گردانہ حملہ محمود خان اچکزئی پر ہوا اور اس دوران اولس یار شہید ہوا پھر دوسرا ریموٹ کنٹرول حملہ ایف سی کے دو چیک پوسٹوں کے درمیان ہی محمود خان اچکزئی پر ہوا اس کے بعد اسفند یار خان ، شیر پاؤ ، مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر خالد سومرو کو ٹارگٹ کیا گیا اسی طرح صوبے میں نواب مگسی ، اسلم رئیسانی ، ثناء اللہ زہری سمیت تمام لیڈر کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کا شکار بنے ہیں ۔

یہ ریاستی دہشت گر دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کو روکنے کے لئے سرجوڑ کر سوچنا ہوگا اور تمام پارٹیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا ۔ پشتونخوا میپ ہر قسم کی دہشت گردی چاہے وہ فرقہ وارانہ ، قوم پرستی، آزادی یا دوسرے ناموں سے ہو کی بھر پور مذمت کرتی ہے اگر افغانستان پر قبضہ نہیں ہوا تو ہمیں توبہ گار ہونا پڑے گا ۔ پولیو ورکر زپر حملہ غیر انسانی عمل ہے وہ نہ سیاسی تھے اور ان ہی ان کا کوئی نظریہ تھا بس صرف بچوں کو معذوری سے بچانے کے لئے کام کررہے تھے ۔

عاصم کرد گیلو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملہ اور ڈاکٹر خالد سومرو کا قتل سیاست کے لئے لمحہ فکریہ ہے ، صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے ہم سب کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگا اس دوران قائمقام سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے قرارداد کو ترمیم کے ساتھ ایوان میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ، دوسری قردار دادپشتونخوا میپ کے اقلیتی رکن ولیم جان برکت نے پیش کی اور کہا کہ امن وامان کی حالت ملک بھر میں اطمینان بخش نہیں لیکن جس بربریت اور درندگی کا مظاہرہ صوبہ پنجاب میں کوٹ رادھا کشن میں مسیحی میاں بیوی کے ساتھ کیا گیا اس میں نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی نظر آتی ہے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کی مذہبی انتہاء پسندوں کے ذاتی مقاصد کے سامنے بے بسی اور بے حسی عیاں ہے ، معاشرے میں کمزور بے بس مذہبی اقلیت کو بے بنیاد جھوٹے الزامات لگا کر جو وحشیانہ کاروائیاں کی جاہری ہیں اس سے پاکستانیت کی سوچ کو بڑا دھچکا لگ رہا ہے لہذا یہ ایوان اس غیر انسانی ظالمانہ سانحہ کی نہ صرف بھر پور مذمت کرتا ہے بلکہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھاتے ہوئے مذکورہ واقعہ میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے ۔

نیز مسیحی جوڑے کی ظالمانہ قتل پر ایوان میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے اس موقع پر ایوان میں ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی گئی جس کے بعد اسپیکر نے قرارداد منظوری کے لئے ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی