تھوڑا سا دہی ذیابیطس سے محفوظ رکھ سکتا ہے‘ تحقیق،صحت مند افراد کی میڈیکل ہسٹری اور طرز زندگی کے مطالعے سے سامنے آیا ہے کہ دہی کا استعمال اور ذی بیطس ٹائپ 2 کے کم خطرے کے درمیان واضح تعلق ظاہر ہوا ہے، ہر روز 28گرام یعنی دن میں ایک بار دہی کے ایک چھوٹے پیالے میں ایک چوتھائی مقدار دہی کھانا شوگر کی بیماری پیدا ہونے کے خطرے کو تقریبا 20 فیصد تک کم کر سکتا ہے، محققین

اتوار 30 نومبر 2014 14:35

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔30نومبر۔2014ء)وسیع پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر روز دہی کا ایک چھوٹا سا حصہ کھانا ذیابیطس سے بچاوٴ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ سے منسلک محققین نے بتایا کہ ہر روز 28گرام یعنی دن میں ایک بار دہی کے ایک چھوٹے پیالے میں ایک چوتھائی مقدار دہی کھانا شوگر کی بیماری پیدا ہونے کے خطرے کو تقریبا 20 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔

'جرنل بی ایم سی میڈیسن' میں شائع ہونے والی تحقیق میں ایک صحت مند غذا کے حصے کے طور پر دہی کی اہمیت پر روشنی ڈالی گی ہے۔یہ سائنسی شواہد ایک طویل دورانیے کے طبی جائزے کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ہیں جس میں محققین نے مطالعے میں 149000 صحت مند افراد کی میڈیکل ہسٹری اور طرز ِزندگی کا مطالعہ کیا ہے اور انہی اعداد و شمار اور معلومات کی بنیاد پر محققین کو دہی کا باقاعدگی سے استعمال اور ذیایطس ٹائپ 2 کے کم خطرے کے درمیان واضح تعلق نظر آیا ہے۔

(جاری ہے)

محققین نے مطالعے کے آغاز سے اختتام تک شرکاء کی غذائی عادات کا ریکارڈ محفوظ کیا۔مطالعے کیتمام شرکا تجزیہ شروع ہونے کے وقت ذیابیطس کے مریض نہیں تھے لیکن تحقیق کیاختتام تک 15,156 لوگوں میں یہ بیماری موجود تھی تاہم ان کی غذائی عادتوں کے تجزیہ سے پتا چلا کہ ان کی خوراک میں شامل تمام ڈیری مصنوعات کا ذیابیطس کیخطرے کی کمی پر کوئی کردار نہیں تھا۔

اس نتیجے کے بعد تجزیہ کاروں نے ڈیری مصنوعات دودھ، اسکیمڈ ملک، پنیر اور دہی کی انفرادی کھپت کے اثرات کو دائمی امراض کے خطرے مثلا ان کی عمر، بی ایم آئی (قد کے لحاظ سے وزن کی پیمائش) اور غذائی عوامل کے ساتھ ملا کر دیکھا تو پتا چلا کہ دودھ اور زیادہ چکنائی والی چیزوں مثلا پنیر کے انفرادی استعمال کا ذیابیطس کے خطرے کی کمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

محققین کے مطابق ذیابیطس سے بچاوٴ کا تعلق صرف دہی کھانے کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔نتائج کی تصدیق کے لیے محققین نے ایک میٹا تجزیہ شروع کیا جس میں 2013 مارچ تک شائع ہونے والے مطالعوں کے اعداد و شمار اور مطالعے کینتائج کو استعمال کرتے ہوئے ڈیری مصنوعات اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے درمیان تعلق جاننے کے لیے تحقیقات شروع کیں۔محققین نے کہا کہ اس بار نتائج بہت واضح تھے یعنی لگ بھگ 5 لاکھ افراد کی روزمرہ کھانے پینے کی تفصیلات کا تجزیہ کرنے سے یہ واضح ہو گیا کہ ہر روز صرف 28 گرام دہی کھانے سے ذیابیطس بیماری پیدا ہونے کے خطرے کو 18 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

معلوم ہوا کہ پچھلے مطالعوں میں بھی کیلشئیم، میگنیشیم اورڈیری مصنوعات سے حاصل ہونے والی چکنائی کے صحت مند اثرات کو ذیابیطس ٹاپ ٹو بیماری کے خطرے کی کم شرح کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔دہی دودھ کی ایک خمیر شدہ شکل ہے دہی کی سب سے بڑی خصوصیت صحت بخش بیکٹیریا کی وہ بہتات ہے جو اس میں پائی جاتی ہے یہ ایک بہترین اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو جسم کو زہریلے اور خطرناک مواد سے پاک کرتا ہے۔

محققین نے کہا کہ دہی میں پایا جانے والا بیکٹیریا پروبائیوٹک کے استعمال کو معمول بنانے سے قوت ِمدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں میں فیٹی پروفائل اور اینٹی آکسیڈنٹ کی حیثیت کو بہتر بناتا ہے۔مطالعے کے سنیئر محقق فرینک ہو نے کہا کہ ہمارے مطالعے میں زیادہ مقدار میں دہی کھانے کا ذیابیطس کے کم خطرے کے ساتھ گہرا تعلق ظاہر ہوا ہے لیکن ڈیری مصنوعات کی کل کھپت کے ساتھ ذی بیطس ٹائپ 2 سے تحفظ کے بارے میں شواہد حاصل نہیں ہوئے ہیں۔

محقق پروفیسر فرینک ہو نے تجویز پیش کرتے ہوے کہا کہ، ''دہی کو ایک صحت مند غذائی پیٹرن میں شامل کر لینا چاہیئے''۔ دودھ سے دہی بنانے کا رواج لگ بھگ تیس ہزار سال قبل مسیح میں مصریوں کے زمانے میں رائج ہوا۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دہی فراعنہ ِمصر کے دستر خوان پر دہی عمدہ غذا کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دہی کو 'یوگرٹ' نام ترکیوں نے دیا تھا جس کے بعد سب سے زیادہ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ دہی وسط ایشیا کے لوگوں کی ایجاد ہے اور اس سلسلے میں ایک واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی شہنشاہ اکبر کے باورچی سوسوں کے بیج اور دار چینی سے دہی کے ذائقے کو دوبالا کرتے تھے۔

تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہی کا استعمال فرانسسی طبی تاریخ میں بھی پایا جاتا ہے حتیٰ کے 1900 صدی روسی سلطنت، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا، جنوب مغربی یورپ، مرکزی یورپ اور ہندوستان میں دہی کا استعمال عام ہو گیا تھا۔