پاکستان نے ملکی طلب سے زائد چینی تیار کر لی ، اس لئے 5 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کریں گے،سکندر حیات خان بوسن،

ایکسپورٹ کے لئے چینی ان شوگرز ملوں سے لی جائے گی جو کسانوں کے واجبات پہلے ادا کریں گے اور وقت پر کرشنگ شروع کریں گے، جامع نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی مرتب کرنے کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس کیلئے تمام متعلقین سے تجاویز طلب کی ہے، اور جلد ہی اسکا اعلان کردیا جائے گا،تقریب سے خطاب، میڈیا سے گفتگو

جمعرات 4 دسمبر 2014 22:38

کراچی(اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 04 دسمبر 2014ء) وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات خان بوسن نے کہا ہے کہ پاکستان نے ملکی طلب سے زائد چینی تیار کر لی ہے اس لئے 5 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کریں گے لیکن ایکسپورٹ کے لئے چینی ان شوگرز ملوں سے لی جائے گی جو کسانوں کے واجبات پہلے ادا کریں گے اور وقت پر کرشنگ شروع کریں گے، جامع نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی مرتب کرنے کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس کیلئے تمام متعلقین سے تجاویز طلب کی ہے، اور جلد ہی اسکا اعلان کردیا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں سندھ مینگو گرورز اینڈ ایکسپورٹرز کی جانب سے منعقدہ تقریب میں بحثیت مہمان خصوصی خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر آسٹریلیا کے پاکستان میں تعینات ہائی کمشنرپیٹر ہارورڈ ، پروفیسر رائے کولنز، پروفیسر ٹونی دوننی ، ڈاکٹر پیٹر جانسن، ڈائریکٹر پلانٹ پروڈکشن ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر مبارک اور افتخار احمد نے بھی خطاب کیا۔

تقریب میں آسٹریلیا سے آئی ہوئی ٹیکنیکل ٹیم کے علاوہ آم کے آبادگاروں اور ایکسپورٹرز نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسن نے کہا کہ جامع نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی بنا رہے ہیں اور اس کے لئے ہم نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے تجاویز دیں، اس حوالے سے قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ اینڈ سیکورٹی نے بھی اپنے رائے دی ہے اور ہم پالیسی مرتب کرنے کو حتمی شکل دے رہے رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایکسپورٹ کیلئے 5 لاکھ ٹن چینی ان شوگرز ملوں سے لی جائے گی جو پہلے کسانوں کے واجبات ادا کریں گے اور وقت پر کرشنگ شروع کریں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آم کے آباد گار اور ایکسپورٹرز کو جن مسائل کا سامنا ہے اس میں معلومات، ٹریننگ کی کمی اور عالمی مارکیٹ تک رسائی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سابقہ دور وزرات میں آسٹریلیا حکومت سے زراعت کے شعبے میں تعاون طلب کیا تھا جس پر آسٹریلوی حکومت نے اچھا ردعمل کا اظہار کیا تھا اور آسٹریلیا کے تعاون سے جو پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا اس کا مقصد آم کی شیلف لائف کو بڑھانا تھا، آم کے لئے نئی مارکیٹ تلاش کرنا تھا، یورپ، برطانیہ اور دبئی میں صارفین کی ترجیحات کا مطالعہ کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس پراجیکٹ کے اچھے نتائج مرتب ہوئے تھے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ ایک اچھا پروگرام ہے اور اس لئے میں آسٹریلیا حکومت سے کہتا ہوں کہ وہ اس پروگرام کو جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹریننگ، کیپسٹی بلڈنگ کے شعبوں میں بھی تعاون کی ضرورت ہے،آسٹریلیا کی حکومت زراعت اور ڈیری کے شعبوں میں ہمارے ساتھ تعاون کرے اور آسٹریلوی کمپنیوں کو پاکستان لائے۔

متعلقہ عنوان :