پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان کے زیر اہتمام ایک روزہ سیمینار کا انعقاد ،

موجودہ عدالتی نظام غریب عوام، محنت کش اور پسے ہوئے طبقات کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے یہی وجہ ہے آج ملک میں بدامنی، لاقانونیت اور قتل عام کی وجہ سے خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے،مقررین کا خطاب

پیر 8 دسمبر 2014 19:37

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 08 دسمبر 2014ء) پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان کے زیر اہتمام ایک روزہ سیمینار بموضوع" موجودہ نظام عدل، محنت کش اور پسے ہوئے طبقات کی نظر میں " خورشید لیبر ہال کوئٹہ میں منعقد ہوا۔سیمینار سے پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان کے رہنماؤں محمد رمضان اچکزئی، ضیاء الرحمٰن ساسولی، علی بخش جمالی، حاجی عزیز اللہ، عبدالحئی، عبدالغفار صافی، عصمت اللہ ترین اور آل پاکستان نادرا ایمپلائز یونین کے مرکزی صدر سلیم شیر پاؤ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام غریب عوام، محنت کش اور پسے ہوئے طبقات کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں بدامنی، لاقانونیت اور قتل عام کی وجہ سے خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام میں ڈکٹیٹر مشرف کو آئین توڑنے پر سزا سے بچانے کیلئے نظریہ ضرورت کے تحت راہ نکالی جاتی ہے تو کبھی سابق صدر زرداری کے 6کروڑ ڈالر کو سوئس بینک سے لانے میں عدالتی نظام مکمل ناکام رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ایلیٹ طبقات کے تمام لوگ سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں اور غریب شہری جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ گزشتہ دنوں عدالت عالیہ بلوچستان نے چھوٹے درجے کے فوت شدہ ملازمین کے لواحقین کے کوٹے کو امتیازی سلوک کے زمرے میں لاتے ہوئے غیر آئینی قرار دیاجبکہ یہی عدالتیں ججوں، دفاعی اداروں کے افسران ، سول اعلیٰ بیوروکریٹس اور صحافیوں کو مراعات، کئی مربعے زمین اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے کوٹے پر فیصلہ کرنے سے کترا رہی ہیں بلکہ اسلام آباد کے چک شہزاد کے فارم ہاؤسز کے نام پر اربوں روپے کی جائیدادوں کی الاٹمنٹ اور کوٹے کو غیر آئینی قرار نہیں دیاجاتا۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں ججز کوٹے کی بنیاد پر تعینات کیے جارہے ہیں زبان اور علاقے سے تعلق کو میرٹ بنایا گیا ہے جبکہ موجودہ عدالتی نظام میں مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کے استحصال کا آج تک کوئی حل نہیں نکالا گیا ۔ آج کئی مالیاتی اداروں اور بینکس میں کروڑوں روپے کی تنخواہیں مقرر ہیں بلکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہیں بھی آٹھ لاکھ روپے سے زیادہ ہیں لیکن اس ملک میں مزدور کی کم از کم اجرت 12 ہزارروپے پربھی عملدرآمد نہیں ہورہا۔

مزدور عدلیہ کے پاس جاتے ہوئے خوف کا شکار ہوتے ہیں بلکہ عدالت میں غریب محنت کشوں اور مظلوموں کی داد رسی کی بجائے ان کے کیسز کئی کئی سال تک التواء کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے محنت کش ذہنی کرب میں مبتلاء ہوکر عدالتوں سے بیزارہورہے ہیں۔وکیلوں کے آئے روز کے بائیکاٹ اور بھاری بھرکم فیسوں کی وجہ سے موجودہ نظام عدل محنت کش اور پسے ہوئے طبقات کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے۔

اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ میں ایسی درخواستیں بھی سماعت کیلئے رکھ دی جاتی ہیں جس کی قانون کے مطابق سماعت نہیں ہوسکتی اور عدالتیں جب نوٹس جاری کرتی ہیں تو بلائے گئے سائلین کو عدالتوں کے کٹہرے میں آنا پڑتا ہے اور بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو کیس ہی نہیں بنتا۔مقررین نے کہا کہ اگر نظام عدل میں سستے اور فوری انصاف کی رسائی یقینی نہیں بنائی گئی تو ملک اور معاشرے کے وجود کو قائم رکھنے کیلئے خطرات درپیش ہونگے۔

انسانی حقوق کمیشن صوبہ بلوچستان کے ممبر شمس الملک مندوخیل نے کہا ہے کہ انصاف کی بلا تفریق فراہمی کا چارٹر حکومت نے عالمی سطح پرتسلیم کیا ہے اور آئین میں ان بنیادی حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے معاشرے کو آگاہی اور اپنے حقوق کیلئے منظم ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالقیوم لہڑی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک سمندر خان کاسی اورممتاز قانوندان اعظم جان زرکون ایڈوکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے مزدوروں کے خیالات اور احساسات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں رائج عدالتی نظام کی وجہ سے محنت کش ، غریب اور پسے ہوئے طبقات کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ججوں کوعدالتوں میں بردباری اور انتہائی برداشت کے ذریعے مظلوموں کو سننے اور ان کی داد رسی کرکے انہیں انصاف فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے ججوں کی تعیناتیوں کے طریقہ کار کو بدلنے اور میرٹ پر تعیناتیوں کیلئے بھی کہا تاکہ میرٹ پر تعینات ہونے والے جج انصاف کی فراہمی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔انہوں نے غریب محنت کشوں کو یقین دلایا کہ وکیل محنت کشوں کے مقدمات میں انصاف کی فراہمی کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔