ملتان ، اہلسنت والجماعت علمائے دیوبند کی دینی جماعتوں کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس،

اتحاد مجلس علمائے پاکستان کے نام سے کام کرے گا، مرکزی صدر امیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا حافظ سید عطا المومن شاہ بخاری ہوں گے ،اجلاس میں فیصلہ ، ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل، کرا چی میں ٹارگٹ کلنگ اور ماورائے عدالت قتل کی مذمت

منگل 9 دسمبر 2014 22:01

ملتان (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 09 دسمبر 2014ء) اہلسنت والجماعت علمائے دیوبند کی دینی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) جمعیت علمائے اسلام س ‘ اہلسنت والجماعت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ مجلس احرار اسلام پاکستان ‘ وفاق المدارس عربیہ پاکستان ‘ جماعت توحید سنہ پاکستان ‘ ختام اہلسنت اور پاکستان شریعت کونسل کے رہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس منگل کی سہ پہر دفتر عالمی مجلس ختم نبوت ملتان میں منعقد ہوا ‘ جس کی صدارت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے کی جس میں طے پایا کہ یہ اتحاد مجلس علمائے پاکستان کے نام سے کام کرے گا اس کے مرکزی صدر امیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا حافظ سید عطا المومن شاہ بخاری ہوں گے جبکہ رابطہ کمیٹی کے ارکان میں حافظ سید عطا المومن شاہ بخاری ‘ حافظ حسین احمد ‘ قاری حنیف جالندھری‘ مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا عبدالرؤف فاروقی‘ مولانا الطاف الرحمن‘ مولانا سید محمد کفیل شاہ بخاری ‘ مولانا محمد عمر قریشی ‘ مولانا اشرف علی‘ مولانا الله وسایا ‘ ڈاکٹر خادم حسین ڈھلو شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اجلاس میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے میثاق پر دستخط کئے اور اجلاس میں طے پایا کہ مجلس علمائے پاکستان کی جنرل کونسل دیوبند مکتبہ فکر میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہ شامل ہوں گے جبکہ 21 رکنی سپریم کونسل میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی‘ مفتی محمد رفیع عثمانی‘ مفتی ضرب علی خان‘ ڈاکٹر سید شیر علی شاہ‘ مفتی حمید الله جان‘ مفتی عبدالرحیم ‘ مولانا عبید الله ‘ مولانا عبدالصمد حالیجوی ‘ مفتی محمدنعیم‘ مولانا سید یوسف‘ مفتی غلام الرحمن اور مولانا عبدالحفیظ مکی اجلاس میں طے پایا کہ یکم جنوری 2015 ء کو کراچی میں علماء کنونشن منعقد ہوگا جبکہ جنرل کونسل کا اجلاس 14 جنوری 2015 ء کو کراچی میں منعقد ہوگا اور 15 جنوری 2015 کو جلسہ عام منعقد منعقد کیا جائے گا۔

اجلاس میں طے پایا کہ مجلس علمائے پاکستان کے آٹھ نکاتی پروگرام کیلئے ملک بھر سے رائے عامہ کو منظم کیا جائے گا اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف عوامی جدوجہد کی جائے گی۔ سپریم کونسل کے اجلاس میں طے پایا کہ اہلسنت والجماعت علمائے دیوبند کی متحدہ کونسل میں شامل جماعتوں اور حلقوں کے رہنماء اور نمائندے عہد کرتے ہیں کہ ہم آٹھ نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے اور اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے اہل حق کو متحد اور مربوط بنانے کیلئے پرخلوص محنت کریں گے۔

ایک دوسرے کے احترام کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے ۔ باہمی تنازع امور اور مسائل کو عوامی سطح پر زیر بحث لانے سے گریز کریں گے۔ اپنے کارکنوں اور رفقاء کی ان امورکے حوالے سے تربیت اور ذہن سازی کا اہتمام کریں گے۔ خدانخواستہ کسی سانحہ کی صورت میں کسی رابطہ یا دعوت کا انتظار کیے بغیر متاثرہ جماعت حضرات کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ مشترکہ مقاصد کیلئے مشترکہ مجالس اور ماحول عام کریں گے اور اس کیلئے عملی اقدامات کریں گے۔

سپریم کونسل اور رابطہ کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد میں حتی الوسا کسی کو تاہی کو رواں نہیں رکھیں گے۔ مشترکہ آٹھ نکاتی پروگرام کی ہر سطح پر زیادہ سے زیادہ تشہیر کی کوشش کریں گے۔ ملک کی عوامی رائے کو اس پروگرام اور ایجنڈے کیلئے ہموار کرنے میں ہر میسر ذریعہ استعمال کریں گے۔ باہمی شکایات اور تنازعات کو آپس میں مل بیٹھ کر طے کریں گے اور باہمی دائرے سے باہر لے جانے سے گریز کریں گے۔

اس موقع پر وفاق المدارس عربیہ کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے آٹھ نکاتی ایجنڈا پڑھتے ہوئے بتایا ۔ پاکستان کے اسلامی تشخص اور تحفظ اور اسلامی نظام کا نفاذ ۔ قومی خودمختاری اور اس کی سالمیت و وحدت کا تحفظ ‘ امریکہ اور دیگر طاغوتی قوتوں کے سیاسی غلبہ اور تسلط سے نجات ‘ 73 ء کے دستور بالخصوص اسلامی نکات کی عملداری ‘ تحفظ ختم نبوت ‘ تحفظ ناموس رسالت کے قوانین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملداری کی جدوجہد ‘ مقام اہلبیت ‘ اضام صحابہ صحابہ کرام کا تحفظ ‘ قومی تعلیمی نظام اور نصاب میں ڈیر ملکی کلچر کے فروغ کی مذمت اور روک تھام‘ فحاشی عریانی اور مغربی کلچر کی روک تھام اور ملک کو فرقہ وارانہ نفرت انگیزی اور شیعہ سنی اختلافات فسادات کی صورت اختیار کرنے سے روکنا۔

اس موقع پر اتحاد مجلس علمائے پاکستان کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل کونسل میں چالیس جماعتیں شامل ہوں گی اور اس اتحاد کا مقصد دیوبند علماء تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر مذہبی جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ یہ قومی اور ملکی درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اکٹھا کریں گے انہوں نے کہا کہ ملک میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے اس میں حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ تحمل اور برداشت سے کام لے انہوں نے کہا کہ جہلم اور فیصل آباد میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ قابل مذمت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن آئینی طریقہ اور فریم ورک پر معاملات کو سنواریں اور آئین کے دائرے میں رہ کر معاملات کو حل کریں تو ایسے سانحات نہ ہوں ۔ حکومت کی غلط پالیسیون کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور ملک کو بند کرانا اور بازار بند کرانا اچھا عمل نہیں ہے ہم حکومت اور پی ٹی آئی کے دونوں کے کردار کی مذمت کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ معاملات کو انتہا پسندی اور تشدد کی بجائے افہام و تفہیم سے آئین اور قانون کے مطابق حل کریں۔

پی ٹی آئی بھی مفاہمتی راستہ اپنائے۔ اور تمام سیاسی قوتیں معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ ہر پارٹی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پر امن احتجاج کرے دونوں کو مفاہمت اپنانی چاہیے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لندن میں مولانا فضل الرحمن پر حملہ نہیں ہوا بلکہ وہاں ڈاکٹر خالد محمود مقتول کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس تھا جس میں شرکت کے بعد مولانا گزر رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے تین لڑکوں نے پی ٹی آئی کے حق میں نعرے لگائے مولانا کیخلاف نہیں۔

میڈیا نے غلط کیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے کل لاہورمیں بھی کہا ہے کہ تشدد کا حجان لاقانونیت اداروں میں پھیل رہی ہے نابینا افراد کا کسی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت سے تعلق نہیں تھا مگر ان پر تشدد کیا گیا۔ حکومت اگر اپنے آئینی اختیارات میں رہے تو ملک میں اس قسم کے حالات پیدا نہ ہوں۔ مولانا عطا المومن بخاری نے کہا کہ حکومت غریبوں کو پیستی ہے طاقتوروں کو کچھ نہیں کہتی۔

حکومت اپنے کردار پر غور کرے انہوں نے کہا کہ شہر بند کرنا یا ملک بند کرنا قومی مفادمیں نہیں قابل مذمت ہے ۔ قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وہی قوتیں موثر ہیں جن کو وہاں نمائندگی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں عوامی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے تاکہ وہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہدکریں۔

ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ ماضی میں پاکستان قومی اتحاد بنا تھا اس وقت بھی دھاندلی ہوئی تھی آج بھی دھاندلی کی بات ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا اتحاد کوئی جماعت شامل ہونا چاہیے گی اس کو منشور دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن اور آئینی راستہ اپنائیں تو عزیز ہم وطنوں والے حکومت میں نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد سانحہ کی مذمت کرتے ہیں ۔ تمام جماعتیں در گزر سے کام لیں ۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم آٹھ نکات کیلئے جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ملکی جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔ اگر دیگر جماعتیں ہمارے اس ایجنڈے پر متفق ہوں گی تو ہم ان کو شامل کریں گے ۔ بعد ازاں ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل، کرا چی میں ٹارگٹ کلنگ اور ماورائے عدالت قتل کی مذمت کی ہے۔