لاہور جنرل ہسپتال کا آؤٹ ڈور ڈیپارٹمنٹ ایک ماہ سے بند

ہفتہ 13 دسمبر 2014 17:20

لاہور جنرل ہسپتال کا آؤٹ ڈور ڈیپارٹمنٹ ایک ماہ سے بند

لاہور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 13 دسمبر 2014ء) صوبائی دارالحکومت میں نیورو سرجی کے سب سے بڑے لاہور جنرل ہسپتال کا آؤٹ ڈور ڈیپارٹمنٹ گزشتہ ایک ماہ سے بند ہونے کے باعث صوبہ کے دوردراز کے علاقے سے آنے والے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ درجنوں مریض ہسپتال تک پہنچنے کے باوجود علاج معالجہ کی سہولت میسر نہ آنے کے باعث صحت یاب ہو کر گھر جانے کی بجائے اوپر چلے گئے ہیں۔

اس حوالے سے جب ہسپتال انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ 12 نومبر کو محمد ادریس ولد غلام مرتضیٰ نامی مریض کی ہلاکت پر کافی ہنگامی آرائی کی گئی جس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے ایک انکوائری کمیٹی بنائے جس کی رپورٹ آنے پر ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق جنرل ہسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر پرویز امتیاز، ڈاکٹر سید عباس، ڈاکٹر حبیب خاں، ڈاکٹر اعجاز محمود، اور ہیڈ نرس رقیہ اورنگ زیب کو معطل کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

تحقیقاتی رپورٹ میں ڈاکٹروں کی غیر ذمہ داری اور لا پرواہی اور غفلت کا الزام ثابت ہونے کے بعد معطل کیا گیا ہے۔ لاہور جنرل ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جنید مرزا نے اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 13 دسمبر 2014ء سے گفتگو کے دوران کہا کہ ہسپتال کے آؤٹ ڈور کے شعبہ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ہسپتال کے آؤٹ ڈور کے شعبہ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے بارے میں سیکرٹری ہیلتھ اور وزیراعلیٰ پنجاب کے نوتس میں ہے۔

ہسپتال انتظامیہ اس حوالے سے بے بس ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور جنرل ہسپتال نیورو سرجی کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور یہاں پر تمام جدید مشینری اور ادویات موجود ہیں اور نیورو سرجری کے ماہرین یہاں پر مستعدی سے کام کر رہے ہیں مگر ڈاکٹروں کی ہڑتال کو ختم کرنے کے آگے ہم بے بس ہیں۔ انہوں نے صوبہ کے درو دراز علاقوں سے آنے والے نیو رو کے مریضوں کی تکالیف کسمپرسی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہسپتال کی ایمرجنسی کام کر رہی ہے۔

ایسے تمام مریضوں کے علاج معالجہ میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جاتی تو ہسپتال کی ایمرجنسی میں آتا ہے۔ مگر جو مریض ہسپتال کے آؤٹ ڈور میں آتے ہیں وہ ایمرجنسی کی نسبت معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کی تکالیف اور پریشانی کا ہمیں بخوبی علم ہے مگر ہم وہاں تک ہی جاتے ہیں جہاں تک قانون اور ضابطہ ہمارا ساتھ دیتا ہے۔

متعلقہ عنوان :