ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس‘ سپریم کورٹ نے مرکزی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو پالیسی وضع کرنے کیلئے جولائی کے آخری ہفتے تک کا وقت دیدیا،حکومت پالیسی کی پراگریس کے بارے میں بتائے اس سے مریضوں کو کیا فائدہ ہوگا‘ ڈاکٹروں کی پہلے بھی چاندی تھی اب بھی چاندی ہوگی‘ قائمقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کے ریمارکس

منگل 26 جون 2007 15:51

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار26 جون 2007) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھر میں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے مرکزی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کو پالیسی وضع کرنے کے لئے جولائی کے آخری ہفتے تک وقت دیدیا ہے‘ جبکہ اس سلسلے میں مزید سماعت اگست کے پہلے ہفتے میں ہوگی ‘ قائمقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پالیسی کی پراگریس کے بارے میں بتائے اس سے مریضوں کو کیا فائدہ ہوگا‘ ڈاکٹروں کی پہلے بھی چاندی تھی اب بھی چاندی ہوگی‘ پچھلے تین ماہ سے ریکیمنڈیشن کے حوالے سے سن رہے ہیں کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے جبکہ جسٹس سردار رضا خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ آرمی اصولوں کے تحت ڈاکٹروں کو جو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دے رہے ہیں وہاں تو فوجیوں کو علاج معالجے کی فری سہولت دی جاتی ہے جبکہ سول سوسائٹی کے افراد سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز چکوال میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے ہلاک ہونے والے بچے حمزہ کے والد اظہر عباس کی درخواست پر لئے گئے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ادا کئے۔ دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ محمد ارشاد‘ وفاقی سیکرٹری صحت خوشنود لاشاری اور چاروں صوبائی ہیلتھ سیکرٹریز عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سے قائمقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے استفسار کیا کہ اب تک ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے حکومت نے کیا کیا ہے اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس سلسلے میں 26 جون 2007ء کو حکومت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا ہے۔

اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے پالیسی کا فریم ورک مکمل کرلیا ہے۔ سمری منظوری کے لئے وزیراعظم ہاؤس بھجوا دی ہے اور کمیٹی نے ہسپتالوں میں ہی پرائیویٹ پریکٹس کو بنیاد بنایا ہے۔ اس پر جسٹس سردار رضا خان نے کہا کہ آپ نے آرمی کے اصولوں کے تحت پالیسی بنائی ہے وہاں کی بات اور ہے وہاں تو علاج معاملجے کی مفت سہولت ہے فوجی ہسپتالوں کا اپنا فارمولا ہے ہم تو سول افراد کی بات کررہے ہیں ان کا کیا ہوگا فوجی ہسپتالوں میں تو ان سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں فوجی ہسپتالوں میں داخل ہونے سے قبل گیٹ پر ہی پوچھا جاتا ہے کہ بندہ فوجی ہے یا سویلین ہے۔

فوجیوں کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں فوجی ڈاکٹر فیس نہیں لیتا سول ہسپتالوں میں جا کر پوچھنا کہ ڈاکٹر فیس لے گا یا نہیں بڑا عجیب لگتا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ محمد ارشاد نے کہا کہ اگر حکومت ہسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دے رہی ہے تو ظاہری سی بات ہے کہ اس سلسلے میں خاص لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اختیاراتی کمیٹی نے سفارشات مرتب کی ہیں کمیٹی نے پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے ہر پہلو کو سامنے رکھا ہے اس پر قائمقام چیف جسٹس جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا کہ آپ پالیسی کے حوالے سے پراگریس بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اس سے مریضوں کو کیا فائدہ ہوگا۔

ڈاکٹروں کی پہلے بھی چاندی تھی اب بھی ہوگی اس پر وفاقی سیکرٹری صحت خوشنود لاشاری نے عدالت کو بتایا کہ پہلے پہل ڈاکٹروں کو گھروں میں پریکٹس کیا جازت دی گئی تھی تو کئی پرائیویٹ ہسپتال بن گئے یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہسپتالوں کے اندر پرائیویٹ پریکٹش کی اجازت دی ہے صبح کے وقت ڈاکٹر حکومت کی طرف سے کام کررہے ہوں گلے جبکہ رات کو وہ ہسپتال میں پرائیویٹ پریکٹس کریں گے اس سے وہ ہسپتال کے آلات استعمال کرسکیں گے اور مریضوں سے سوائے داکٹر فیس اور آلات کی محدود فیس کے اور کچھ نہیں لیا جائے گا۔

سرحد حکومت نے پہلے پہل اس پر بین لگایا تھا جس کی وجہ سے کئی ماہر ڈاکٹرز نے سرکاری ہسپتالوں کی ملازمت چھوڑ دی سرحد حکومت نے انہیں واپس بلا لیا اور اس کی اجازت دے دی اس پر جسٹس سردار رضا خان نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا ویزراعظم ہاؤس میں کوئی لیگل سیل ہے جیسے صدر سیکرٹریٹ میں ہے اور عدالت کس کو کہے کہ وہ اس سمری کو جلد سے جلد نمٹانے کی کوشش کرے۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں بجٹ کی وجہ سے 31جون تک روکا گیا تھا اب اس پر کارروائی ہوجائے گی۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس پالیسی کی ابتدا پمز ہسپتال سے کریں گے اس پر عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو ہدایت کہ کہ وہ جولائی کے آخری ہفتے تک سمری کو نمٹائے مزید سماعت اگست کے پہلے ہفتے میں ہوگی۔

متعلقہ عنوان :