سانحہ پشاور سے ملنے والے غم کو طاقت بنا کر دہشتگردوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگا ‘ پنجاب اسمبلی میں اظہار خیال،

دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ایمر جنسی کا نفاذ کیا جائے ،یورپی یونین کی دھمکیوں میں آئے بغیر سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد ،قانون میں ترامیم کر کے دہشتگردوں کو چوکوں اور چوراہوں میں لٹکایا جائے سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم کا متحد ہونا قابل ستائش ہے اب حکومت کا ایجنڈا صرف اور صرف دہشتگردی کا خاتمہ ہونا چاہیے ، سانحہ پشاور پر راجہ اشفاق سرور‘ سردار شہاب الدین‘ وقاص اختر موکل ‘ عامر سلطان چیمہ‘ عظمیٰ زاہد بخاری‘ وارث کلو ‘ امجد علی جاوید و دیگر کا خطاب، پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں قواعد کی معطلی کی تحریک کی منظوری کے بعد معمول کی کارروائی معطل کر کے سانحہ پشاور پر بحث کی گئی

جمعہ 19 دسمبر 2014 20:31

لاہور( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 دسمبر 2014ء) پنجاب اسمبلی کے ایوان میں سانحہ پشاور پر اظہار خیال کرتے ہوئے حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے آخری دہشگرد کے خاتمے تک لڑنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ پشاور پاکستان نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا اندوہناک اور المناک واقعہ ہے ،قوم کو اس سانحے سے ملنے والے غم کو اپنی طاقت بنا کر دہشتگردوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگا ،دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ایمر جنسی کا نفاذ کیا جائے ،یورپی یونین کی دھمکیوں میں آئے بغیر سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد اور قانون میں ترامیم کر کے دہشتگردوں کو چوکوں اور چوراہوں میں لٹکایا جائے ،سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم کا متحد ہونا قابل ستائش ہے اب حکومت کا ایجنڈا صرف اور صرف دہشتگردی کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔

(جاری ہے)

سانحہ پشاور پر ملتوی کیا گیا پنجاب اسمبلی کا اجلاس تین روز کے وقفے کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں مقررہ وقت تین بجے کی بجائے 55منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔ اجلاس میں صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کی طرف سے قواعد کی معطلی کی تحریک پیش کی گئی جسکی منظوری کے بعد معمول کی کارروائی معطل کر کے سانحہ پشاور پر اظہار خیال کیا گیا ۔

صوبائی وزیر محنت و انسانی وسائل راجہ اشفاق سرور نے آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے پاس بھی اس سانحہ پر غمزدہ خاندانوں کا دکھ بانٹنے کے لئے الفاظ نہیں اور ہر آنکھ اشکبار اور دل بوجھل ہے جبکہ سب فکر مند بھی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سانحہ پشاور کے بعد سب ذاتی مفادات کو بالائے طاقت رکھتے ہوئے ایک پیج پر آئے ہیں اور سب کا عزم ہے کہ ہم نے دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بطور قوم ہم شرمندہ اور خوفزدہ ہیں ۔ اس سانحے کے بعد جہاں بچوں ‘ ماؤں اوربہنوں کے دلوں میں خوف ہے وہیں غصہ بھی ہے ۔ لیکن پاکستانی قوم بہت سی مشکلات میں سرخرو ہوئی ہے آئندہ بھی سرخرو ہوں گے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بر ملا کہا ہے کہ جس طرح معصوموں کا خون بہایا گیا ہے اسکے قطرے قطرے کا بدلہ لیں گے اس کے لئے ہر کسی کو اپنا کردار اد اکرنا ہوگا ۔

پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار شہاب الدین نے کہا کہ اس سانحہ کے بعد تمام سیاسی قیادت کا مل بیٹھ کر فیصلے کرنا خوش آئند ہے ۔ پاکستان کو دہشتگردی کا سامنا کرتے ہوئے 14سال بیت گئے ہیں ۔ دہشتگرد جہاں اپنا ہدف مقرر کرتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں اب سوچنے کی بات ہے کہ جس طرح تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں اداروں کو بھی حکومت کی مدد کرنی چاہیے ۔

ہمیں اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف چھوڑ کردہشتگردی کو ختم کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستان تحریک انصاف نے بہت اچھا کردار ادا کیا ۔ اب پی ٹی آئی کے اراکین کو بھی دعوت دی جائے وہ ایوان میں واپس آئیں اور تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں اور ون پوائنٹ ایجنڈا صرف اور صرف دہشتگردی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ق) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار وقاص حسن اختر موکل نے کہا کہ 16دسمبر کا دن تاریخ میں سیاہ حروفوں سے لکھا جائے گا ۔

پاکستان 2000ء کے بعد اب تک اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قوم اورپاک فوج کے جوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔ یہ وقت اپوزیشن اور حکومت کا رویہ اپنا کر نہیں بلکہ اکٹھے ساتھ چلنے کا ہے اور اگر ہم متحد رہے تو اس جنگ کو جیت لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ ایسے دشمن سے ہے جس کا کچھ پتہ نہیں لیکن یہ سفاک درندے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس سانحے کے بعد ہر گھر میں خوف ہے ، ہمیں اب جامع حکمت عملی بنانا ہو گی ، ہمیں خوفزدہ ہونے کی بجائے اس طرح کی کارروائیوں کے سد باب کے لئے اقداما ت کرنا ہوں گے اور ہر کوئی اس کی ذمہ داری لے ۔وفاقی حکومت کنکریٹ پالیسی بنائے ، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں شر پسندوں پر نظر رکھنے کی ذمہ داری لیں ۔ ہمیں خون کے ہر قطرے کا بدلہ لینا ہے ۔

ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگا ، اگر ہمار اایک گرے گا تو ہم ان کے دس گرائیں گے ۔ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ کی پالیسی میں حکومت اور سانحہ میں شہید ہونے والے غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ حکومتی رکن اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا کہ ہمیں ایسے لوگوں کاسماجی بائیکاٹ کرنا چاہیے جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے ، جو آج بھی طالبان کو اپنا بھائی کہتے ہیں ۔

میڈیا ہاؤسز ایسے لوگوں کو اپنے پروگراموں میں بٹھاتے ہیں جو ایسے المناک سانحہ کی مذمت بھی نہیں کرتے۔ اگر آج اس آگ پر قابونہ پایا گیا تو یہ آگ کسی کے گھر بھی پہنچ سکتی ہے ۔ اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو بہت دیر ہو جائے گی ۔ میڈیا کو اب ریٹنگ کی بجائے ملک دشمنوں کے درمیان واضح لکیر کھینچ دینی چاہیے ۔مسلم لیگ (ق) کے عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ پاکستان آج بد ترین دور سے گزر رہا ہے ۔

ملک کو اس مقام تک پہنچانے میں ہم سب کا عمل دخل ہے ،ہم نے آج سے پہلے اس طرح کے اقدام نہیں اٹھائے جسکی وجہ سے ان واقعات کو روکا جا سکتا ۔ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ بر سر اقتدار حکومت نے بھی دہشتگردی سے نمٹنے کو ترجیح نہیں بنایا ۔ اس مد میں 20ارب روپے رکھے گئے لیکن صرف 9 کروڑ روپے جاری ہوئے ۔ ہمیں پولیس اور دیگر فورسز کو جدید آلات اور ہتھیاروں سے لیس کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد پر ہمیں باہر کی طاقتیں تعلقات ختم کرنے کی دھمکیاں دیتی ہیں ، بنگلہ دیش میں پھانسیاں دی گئیں ، بھارت کشمیر میں کیا کر رہا ہے اسے کیوں دھمکیاں نہیں دی جاتیں۔ ہمیں اب غیروں کی جنگ کی بجائے اپنے ملک کی بقاء کا سوچنا ہوگا،اب ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا ۔ بیشک ہماری گرانٹس بند کر دی جائیں لیکن دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے ایمر جنسی کا نفاذ کیا جائے ۔

دہشتگردی کے خلاف بنائی جانے والی ہر پالیسی میں مسلم لیگ (ق) حکومت کا ساتھ دے گی ۔ پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے کہا کہ ضرب عضب پوری قوم کے تحفظ کے لئے ہو رہا ہے ۔ یہ 12لاکھ شہداء کا ملک ہے ، سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم نے یکجہتی کا ثبوت دیا ہے، شر پسند عناصر کا ہر جگہ ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اب 7138 سزائے موت کے منتظر مجرموں کو شریعت کے مطابق سزا ملے گی ۔

دس کروڑ عوام کا نمائندہ پنجاب کا ایوان غمزدہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد رکن اسمبلی احسن ریاض فتیانہ نے کہا کہ شہید بچوں میں کسی نے بڑے ہو کر ڈاکٹر‘ کسی نے انجینئر اور کسی نے سائنسدان بننا تھا ، یہ سانحہ نسل کشی کی ایک قسم ہے ۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر لوگ طالبان کی حمایت میں بات کرتے ہیں انکے خلاف ایکشن نہ لینا غلط بات ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ اس سانحہ میں جن بچوں کو ریسکیو کیا گیا ہے انکی کونسلنگ کی جائے ۔ طلبہ کو تربیت دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعہ سے نمٹ سکیں۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اپنے ملک میں ہونے والے حملے پر سات سمندر پار آکر کارروائی کر سکتا ہے تو ہمیں بھی اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کرنا چاہئیں اور وہ جہاں بھی چھپیں ان کا پیچھا کیا جانا چاہیے ۔

اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لئے پبلک واچ سسٹم متعارف کرانا چاہیے ۔ ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے کہا کہ اگر اس طرح کے حملے کی پیشگی اطلاع تھی تو اسکے تدارک کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہیے تھے۔ وارث کلو نے کہا کہ ہماری سیاسی کوتاہیوں اور عدم استحکام کا نتیجہ ہے کہ ہمیں آج یہ دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔ ہم جب سے آزاد ہوئے ہیں ہماری تاریخ سانحات سے بڑھی پڑی ہے ۔

ہمارے ہاں ذاتی مفادات کی سیاست ہوتی رہی ہے ، ہم نے چند ڈالروں کی خاطر یہاں پر دہشتگردی کی نرسریاں بنوائیں۔امجد علی جاوید نے کہا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا اندوہناک اور المناک واقع ہے اور شاید تاریخ اس کا جواب نہیں دے سکے گی ۔ ہمیں اس سانحہ سے ملنے والے غم کو اپنی طاقت بنانا چاہیے اور جن دہشتگردوں نے قوم کو للکارا ہے انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے۔

ہمیں ایسے لوگوں کو قابل نفرت بنا دینا چاہیے ۔ جنگ میں مخالفوں کا نقطہ نظر نہیں لیا جاتا اس لئے انہیں برابری پر نہ بٹھایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ میں تجویز دوں گا پھانسی کے قانون میں ترامیم کی جائیں اور ان لوگوں کو چوکوں اور چوراہوں پر لٹکایا جائے ۔ بحث کے بعد پیر کی سہ پہر تین بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔