سندھ میں گندم ،چینی اور چاول کا بحران پیدا کرنے کے لیے خفیہ ہاتھ سرگرم ہے ،عبداللہ حسین ہارون،

34میں سے 25شوگر ملیں ایک سیاسی جماعت کی ملکیت ہیں ۔شوگر مافیا من مانی کرکے غریب لوگوں کو 20ارب روپے کا ٹیکہ لگانا چاہتی ہے، پریس کانفرنس

جمعہ 19 دسمبر 2014 21:13

کراچی ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 دسمبر 2014ء ) اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب عبداللہ حسین ہارون نے کہا ہے کہ سندھ میں گندم ،چینی اور چاول کا بحران پیدا کرنے کے لیے خفیہ ہاتھ سرگرم ہے ۔34میں سے 25شوگر ملیں ایک سیاسی جماعت کی ملکیت ہیں ۔شوگر مافیا من مانی کرکے غریب لوگوں کو 20ارب روپے کا ٹیکہ لگانا چاہتی ہے ۔حکومت سندھ سرکاری اراضی غریب لوگوں میں تقسیم کرنے کے بجائے ایک مخصوص شخصیت کو نواز رہی ہے ۔

میں کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بن رہا ۔کون کس سے مل رہا ہے ،سب کو دیکھ رہا ہوں ۔تاہم ابھی کسی سے اتحاد یا کسی پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا ۔18ویں ترمیم کے بعد حکومت سندھ کو ایک ہزار ملین روپے وفاق سے ملے تھے لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔

(جاری ہے)

حکومت سندھ سبسڈی ختم کرکے چھوٹے کاشتکاروں کو تباہ کرنے کے در پر ہے ۔جبکہ بھارت میں اب بھی پچاس فیصد زرعی شعبے کو سبسڈی دی جا رہی ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔عبداللہ حسین ہارون نے کہا کہ سندھ حکومت زراعت کے شعبے سے سبسڈی ختم کرکے چھوٹے کاشتکاروں کو نقصان پہنچا رہی ہے ،جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ صوبہ سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک بھارت میں اب بھی زرعی شعبے کو 50فیصد سبسڈی مل رہی ہے ۔

بھارت میں یوریا کھاد کا بیگ اس وقت 650 روپے میں مل رہا ہے تاہم پاکستان میں وہی بیگ 1850 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے اگر یہی صورت حال رہی توخطے میں بھارت زرعی شعبے میں پاکستان سے مزید آگے نکل جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے جی ڈی پی کا 6 فیصد ہونا ضروری ہے ۔ اس وقت پاکستان کی چار فیصد جی ڈی پی ہے جبکہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دو فیصد نفی جی ڈی پی چل رہا ہے ۔

2008 سے پاکستان کی معاشی صوتحال ابتر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں صرف دو مرتبہ جی ڈی پی اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوا ۔ ان میں ایک دور ایوب خان جبکہ دوسرا دور پرویز مشرف کا ہے ۔انہوں نے کہاکہ سندھ میں حکومت نے 180 فی من گنے کی قیمت خرید مقرر کی ہے لیکن تاحال چھوٹے کاشتکاروں سے گنے کی خریداری عمل میں نہیں لائی گئی ہے ۔

گنے کے سوکھنے کے ڈر سے چھوٹے کاشتکار 130 روپے فی من میں فروخت کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شوگر کین کے 160 دنوں میں غریب کسانوں کی جیبوں سے 20 ارب روپے شوگر مل مالکان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ٹریکٹر پر لاکھوں روپے کی سبسڈی دی جاتی تھی ، جس کا براہ راست فائدہ چھوٹے کاشتکاروں کو ہوتا تھا مگر حکومت نے یہ سبسڈی ختم کرکے من پسند کاشتکاروں کو براہ راست امداد کے نام پر دینا شروع کر دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں تین اہم فصلیں چاول ، گنا اور گندم ہیں ، جس سے زرعی شعبے کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے ۔ حکومت 9 لاکھ من لال گندم روس سے خرید رہی ہے جبکہ پاکستان میں چھوٹے اور بڑے کاشتکار مقررہ قیمت نہ ملنے کے باعث اپنی گندم گوداموں میں خراب کرنے پر مجبور ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے کے فور پانی کے منصوبے کو جلد بازی میں منظور تو کر لیا ہے تاہم حکومت سندھ یہ تو بتائے کہ پانی کہاں سے آئے گا ۔

آج تو پانی کے لیے کراچی کی 60 فیصد آبادی ترس رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بیروزگاری کایہ عالم ہے کہ 7 لاکھ روپے ایک سپاہی کی بھرتی کے لیے مانگے جا رہے ہیں ۔ پی آئی اے ، اسٹیل ملز سمیت بڑے ادارے تباہی کی جانب گامزن ہیں جبکہ سندھ جو کہ معاشی حب کہلاتا ہے ، معاشی ابتری کا شکار ہے ۔ پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ابھی تک کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بن رہا ۔

کون کس سے مل رہا ہے ، سب کو دیکھ رہا ہوں ۔ تاہم ابھی کسی میں شمولیت یا کسی سے اتحاد کا کوئی فیصلہ نہیں کرپایا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد حکومت سندھ کو ایک ہزار ملین روپے وفاق مل چکے ہیں لیکن اس کا سندھ کے عوام کو کوئی ریلیف نظر نہیں آتا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ کی زمینوں پر قبضے کی رپورٹ میڈیا کو جاری کی جائے ۔سرکاری اراضی کی حفاظت قائم علی شاہ اور حکومت سندھ کی آئینی ذمہ داری ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ عدالتوں میں زمینوں کے غلط استعمال کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں ۔ انہوں نے سانحہ پشاور پر تعزیت کی اور کہا کہ یہ پاکستان کے مستقبل کا قتل عام ہے ۔

متعلقہ عنوان :