پاکستان میں کینو کے باغات پر وائرس و بیماریوں کے حملے نے شدت اختیار کرلی، رواں سال پیدا ہونے والی 30 سے 40 فیصد فصل بیماری سے متاثر ہونے کا خدشہ

بدھ 24 دسمبر 2014 17:33

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 دسمبر 2014ء) پاکستان میں کینو کے باغات پر وائرس اور بیماریوں کے حملے نے شدت اختیار کرلی ہے جس کے باعث رواں سال پیدا ہونے والی 30 سے 40 فیصد فصل بیماری سے متاثر اور ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے کینو کے باغات اور ایکسپورٹ کی صنعت کو بچانے کے لیے پنجاب اور سندھ حکومت کو ہنگامی مراسلے میں فوری اقدامات اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے کینو کے باغات کو محفوظ بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

ایسوسی ایشن کے شریک چیئرمین وحید احمد کی جانب سے سندھ اور پنجاب کے وزرا اعلیٰ کے نام خطوط میں کینو کے باغات میں بیماریوں کی صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے تدارک کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی اپیل کی ہے۔

(جاری ہے)

خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے سالانہ 15 کروڑ ڈالر مالیت کا کینو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے لیکن پاکستانی کینو میں ”کینکر“ نامی بیماری کے سبب یہ قیمتی زرمبادلہ خطرے میں پڑگیا ہے۔

کینو کی ایکسپورٹ کی صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد اور ان کے گھرانوں کا گزر بسر بھی خطرے سے دوچار ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ دیتے ہوئے تدارک کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو کینو کی صنعت مکمل طور پر تباہ ہوجائیگی جس سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ کا نقصان ہوگا بلکہ اس صنعت سے وابستہ ہزاروں افراد کا روزگار بھی ختم ہوجائے گا جس کا بوجھ حکومت اور معاشرے کو اٹھانا پڑے گا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ روس پاکستانی کینو کی ایک بڑی مارکیٹ ہے روس نے حال ہی میں یورپی ممالک سے پھل اور دیگر غذائی اشیا کی درآمد بند کردی ہے جس کے بعد پاکستان کیلیے روسی منڈی سے فائدہ اٹھانے کا بھرپور موقع ملا ہے لیکن پاکستانی کینو میں قرنطینہ کے مسائل کے سبب روس کی وسیع منڈی میں موجود مواقع سے فائدہ اٹھانا بھی مشکل تر ہوگیا ہے روس نے قرنطینہ اصولوں کی پاسداری نہ کرنے پر سال 2013-14 میں پاکستانی کینو پر عارضی پابندی عائد کی تھی۔

کینو کے باغات کو بیماریوں اور وائرس سے بچانے کیلیے ”درخت در درخت“ کام کرنے کی ضرورت ہے وقت کے ساتھ ساتھ کینو کے باغات کی حالت خراب سے خراب تر ہورہی ہے لیکن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے کاشتکاروں اور اس صنعت سے جڑے افراد میں جدید سائنسی طریقوں سے بیماریوں اور وائرس کی روک تھام اور اعلیٰ معیار کے کینو کی پیداوار ممکن ہے جس کیلیے حکومت کو اپنا کردار فوری طور پر ادا کرنا ہوگا۔

پاکستانی کینو کیلیے دنیا کے دروازے کھلے ہیں اور چار سال میں کینو کی برا?مدات ایک ارب ڈالر تک بڑھائی جاسکتی ہے تاہم نئی ورائٹیز کے فاقدان ، معیار کے مسائل اور مختلف بیماریوں اور وائرس کی وجہ سے پاکستان اپنے اس بہترین پوٹیشنل سے فائدہ نہیں اٹھارہا۔ ایسوسی ایشن نے دونوں حکومتوں پر واضح کیا ہے کہ زرعی مسائل پر قابو پانے میں پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے بالخصوص عملی اقدامات اب بھی نہ اٹھایا گیا تو صنعت کو انتہائی تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متعلقہ عنوان :