مریضہ ’مردہ‘ لیکن حاملہ: زندگی اور موت کا مقدمہ آئرش عدالت میں

جمعرات 25 دسمبر 2014 13:59

مریضہ ’مردہ‘ لیکن حاملہ: زندگی اور موت کا مقدمہ آئرش عدالت میں

ڈبلن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25دسمبر 2014ء)آئر لینڈ میں زیر سماعت ایک مقدمہ ان دنوں ساری دنیاکی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جو ایک ایسی نوجوان خاتون کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے سے متعلق ہے جو طبی حوالے سے مردہ قرار دی جا چکی ہےلیکن اپنے حمل کے پانچویں مہینے میں ہے اور نا مولود بچہ ابھی تک زندہ ہے۔ یہ آئرش مریضہ نومبر کے آخر میں اپنے گھر کے باتھ روم میں گر گئی تھی اور اسے سر پر چوٹ لگنے سے دماغ میں خون جمع ہو گیا تھا اور تین دسمبر کو ڈاکٹروں نے اسے طبی حوالے سے مردہ قرار دے دیا تھا۔

لیکن اس خاتون کو ابھی تک لائف سپورٹ مشینوں کے ذریعے مصنوعی طور پر زندہ رکھا جا رہا ہے۔ ڈبلن ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے سات ڈاکٹر ز کا کہنا ہے کہ مریضہ طبی حوالے سے انتقال کر چکی ہے اور اس کے جسم سے جڑی مشینیں ہٹا دی جانی چاہئیں کیونکہ اس خاتون کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنا ایک پریشان کن عمل ہے اور رہے گا۔

(جاری ہے)

یہ بات بھی یقینی ہے کہ حمل کا عرصہ پورا ہونے تک بچہ ماں کے پیٹ میں یا تو زندہ نہیں رہے گا یا پھر زندہ اس دنیا میں نہیں آ سکے گا۔

تاہم آئرلینڈ کے آئین کے مطابق ماں کے پیٹ میں موجود کسی نامولود بچے کو بھی زندگی کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ کسی دوسرے شہری کو۔اس لئے اس مقدمے میں بنیادی بحث یہ ہے کہ نامولود بچے کی زندگی جب تک ممکن ہو، بچائی جائے یا اسے اس کی ماں کے ساتھ ہی اس لیے موت کے منہ میں جانے دیا جائےکیونکہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے گا اور رحم مادر میں ہی انتقال کر جائے گا۔ ڈاکٹروں کا المیہ یہ ہے کہ اگر وہ اس خاتون کو حاصل لائف سپورٹ اپنے طور پر ہٹا دیتے ہیں تو ان کے خلاف اسقاط حمل کے بہت سخت قوانین سے لے کر قتل تک کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ اس مقدمے میں تین ججوں پر مشتمل عدالتی پینل اپنا فیصلہ چھبیس دسمبر جمعے کے روز سنائے گا۔