حکومت ہائر ایجو کیشن کمیشن کے معاملات پر فوری توجہ دے ،اراکین سینٹ ،

ایچ ای سی کی بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں ایچ ای سی کو ملنے والے فنڈز آئینی طور پر براہ راست صوبوں کو ملنے چاہئیں طلباء کو وظائف بھی انصاف سے فراہم کئے جائیں سینیٹر حاجی عدیل ، فرحت اللہ بابر ، سینیٹر عبد الرؤف ، سینیٹر ایم حمزہ سینیٹر عبد النبی بنگش کا اظہار خیال ، ہایئر ایجوکیشن کا معیار بہترہے، 2014ء میں پاکستان کی 10 یونیورسٹیاں دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں شمار ہوئی ہیں ، وزیرمملکت تعلیم ، 2018ء تک پاکستان ریسرچ کے شعبے میں کئی ملکوں سے آگے نکل جائے گا ، انجینئر بلیغ الرحمن کا اظہار خیال ، 18 ویں ترمیم کے بعد صحت کے ادارے صوبوں کو دیئے گئے، صوبوں کو ریسورسز بھی منتقل کئے گئے ہیں، سائرہ افضل تارڑ ، بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں، صحت کے شعبے صوبوں کو منتقل ہونے سے کارکردگی میں بہتری آئی ہے ،سینٹ میں خطاب

پیر 5 جنوری 2015 20:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 05 جنوری 2015ء) اراکین سینٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہائر ایجو کیشن کمیشن کے معاملات پر فوری توجہ دے  ایچ ای سی کی بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں  ایچ ای سی کو ملنے والے فنڈز آئینی طور پر براہ راست صوبوں کو ملنے چاہئیں طلباء کو وظائف بھی انصاف سے فراہم کئے جائیں جبکہ وزیرمملکت برائے تعلیم انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ ہایئر ایجوکیشن کا معیار بہترہے، 2014ء میں پاکستان کی 10 یونیورسٹیاں دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں شمار ہوئی ہیں 2018ء تک پاکستان ریسرچ کے شعبے میں کئی ملکوں سے آگے نکل جائے گا۔

پیر کو سینٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی طرف سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مجموعی کارکردگی کو زیر بحث لانے کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ یہ ادارہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے طلباء کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے  ہمارے صوبے کو مناسب مواقع فراہم نہیں کئے جاتے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کی اس ادارے سے زیادہ شکایات ہیں، طلباء تعلیمی اداروں میں داخلہ لے لیتے ہیں اور ڈگری حاصل کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے ایچ ای سی سے منظور شدہ نہیں، جب وہ کام کر رہا ہوتا ہے تو ایچ ای سی حکام سوئے رہتے ہیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ ہایئر ایجوکیشن کمیشن میں ڈیڑھ سال سے ایک قائمقام چیئرمین کام کر رہے ہیں، ایچ ای سی کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں، حکومت اس طرف توجہ دے اور اس ادارے کے معاملات درست کرے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ صوبوں نے تعلیم و صحت کے شعبوں کو لینے سے انکار کیا، صوبے اس کے لئے فنڈز مانگتے ہیں، ایچ ای سی کو ملنے والے فنڈز آئینی طور پر براہ راست صوبوں کو ملنے چاہئیں کیونکہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے، آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں تمام فنڈز صوبوں کو جائیں گے۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالحسیب خان نے کہا کہ 18 ویں ترمیم سے قبل ایچ ای سی ٹھیک کام کر رہا تھا اس کے بعد اس ادارے کے معاملات خراب ہو گئے، یونیورسٹیوں کے پاس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے لئے پیسے نہیں ہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کی وجہ سے یونیورسٹیاں بند ہونے کے قریب ہیں یا ان کی کارکردگی بے حد متاثر ہوئی ہے، اس ادارے کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اس مقصد کے لئے ایوان بالا کے ارکان کی ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے۔

سینیٹر عبدالرؤف نے کہا کہ ایچ ای سی کا معاملہ بہت اہم ہے، اس میں چاروں صوبوں سے نمائندگی ہونی چاہیے، طلباء جب باہر سے ڈگریاں لے کر آتے ہیں تو ان کی ڈگریوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور وہ خوار ہوتے ہیں، طلباء کو وظائف بھی انصاف سے فراہم کرنے چاہئیں۔سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ حکومت ایچ ای سی کے معاملے پر مثبت کردار ادا کرے۔ بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے تعلیم انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا کہ ایچ ای سی کی اور حکومت کی پالیسی میں پسماندہ علاقوں کو ترجیح دی جاتی ہے اس سلسلے میں طلباء کی فیس معاف کرنے کا وزیراعظم کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جو پسماندہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلباء کے لئے شروع کیا گیا ہے اور وہ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی کے دونوں چیئرمین بہت اچھے تھے اور انہوں نے اچھا کام کیا ان کا تقرر صدر کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے چیئرمین کے تقرر کے لئے شفاف طریق کار اپنایا اور احسن اقبال کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی، وزیراعظم نے پہلے تین نام مسترد نہیں کئے تھے بلکہ نئی کمیٹی کو ہدایت کی تھی کہ تمام ناموں کا تفصیلی جائزہ لے کر سفارش کرے ارو کمیٹی نے جس کی سفارش کی اسی کو چیئرمین لگایا گیا، ایچ ای سی کا یونیورسٹیوں کو گرانٹس کی فراہمی کا اپنا فارمولا ہے اور اس کے مطابق یونیورسٹیوں کو فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں، ڈویلپمنٹ گرانٹ جو کم ہوتی ہے اس کے لئے بھی ایک طریقہ کار ہے، بد قسمتی سے کئی یونیورسٹیوں میں، خواہ وہ سیاسی بھرتیاں ہوئیں یا یونیورسٹیوں کی اپنی غلط پالیسی کی وجہ سے،ا ساتذہ کے مقابلے میں ملازمین کی شرح عالمی معیار سے بہت زیادہ ہے اس لئے فنڈز کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 2002ء تک دو ہزار اور اس کے بعد سے اب تک 10 ہزار پی ایچ ڈی ہیں، یونیورسٹیوں میں 14 لاکھ کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں، ہایئر ایجوکیشن کا معیار بہت ہوا ہے، 2014ء میں پاکستان کی 10 یونیورسٹیاں دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں شمار ہوئی ہیں، 2018ء تک پاکستان ریسرچ کے شعبے میں کئی ملکوں سے آگے نکل جائے گا، 2014-15ء میں ایچ ای سی کے لئے ہم نے 63 بلین مختص کئے اس کے علاوہ 7 ارب کے دیگر پروگرام شروع کئے گئے ہیں، ہایئرایجوکیشن کا شعبہ بہتری کی طرف جا رہا ہے۔

اجلاس کے دور ان ایم کیوایم کے سینیٹر عبدالحسیب خان کی طرف سے اٹھارویں ترمیم کی پیروی میں صحت کے شعبے صوبوں کے حوالے کرنے کے بعد صحت کے شعبے کی مجموعی حالت کو زیر بحث لانے کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صحت کے ادارے صوبوں کو دیئے گئے، صوبوں کو ریسورسز بھی منتقل کئے گئے ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی صوبوں سے واپس وفاق میں آئی، صوبوں نے خود اس اتھارٹی کے لئے وفاق کو کہاں پی ایم ڈی سی کے حوالے سے کمیٹیوں کی سفارشات پر کام ہو رہا ہے، ہم پر بین الاقوامی ذمہ داریاں ہیں، صحت کے شعبے صوبوں کو منتقل ہونے سے کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔

متعلقہ عنوان :