ڈینگی کنٹرول پروگرام کی طرز پر دہشتگردی کنٹرول نہیں ہو گی،ڈاکٹر رحیق عباسی ،

دینی مدرسے منفی پروپیگنڈا سے بچنے کیلئے خود کو انسپکشن کیلئے پیش کریں، ڈاکٹر توقیر شاہ کو کن خدمات کا انعام ملا ، ڈبلیو ٹی او کو تحریری طور پر آگاہ کریں گے ، کالعدم تنظیموں کی غلط فہرستیں مرتب کرنے پر حکومت معافی مانگے،راولپنڈی دہشتگردی کی مذمت، اتحادی رہنماؤں علامہ ناصر شیرازی ،علامہ امداد اللہ قادری ، مفتی کریم کے ہمراہ پریس کانفرنس

ہفتہ 10 جنوری 2015 20:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10جنوری2015ء) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ ڈینگی کنٹرول پروگرام کی طرز پر دہشتگردی کنٹرول نہیں ہو گی، پنجاب حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے کی بجائے پنجاب اسمبلی کے ایک ماہ تک جاری رہنے والے اسمبلی اجلاس میں بل لانا چاہیے تھا، جن مدارس کا دہشت گردانہ سرگرمیوں سے تعلق نہیں انہیں انسپکشن سے نہیں گھبرانا چاہیے، دہشت گردوں کو بندوق کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے دینگے اور نہ ہی حکومت کو ڈبل ایجنٹ کا رول ادا کرنے دینگے، عسکری ضرب عضب کی طرح سیاسی ضرب عضب شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے، حکومت اپنی صفوں سے دہشتگردوں کے ساتھیوں کو نکالے۔

گریڈ 20 کے ڈاکٹر توقیر شاہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 بے گناہوں کا خون بہانے کے صلہ میں گریڈ 22 کی پوسٹ پر ڈبلیو ٹی او میں سفیر لگایا گیا ، ڈبلیو ٹی او کو تحریری طور پر توقیر شاہ کے کارنامے سے آگاہ کرینگے۔

(جاری ہے)

۔توقیر شاہ کو ترقی دئیے جانے کا انکشاف سربراہ عوامی تحریک نے اڑھائی ماہ قبل پریس کانفرنس میں کردیا تھا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے انصاف حاصل کرنے کیلئے آئندہ چند روز میں نئے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔

اسلام آباد میڈیا سیل کے مطابق ان خیالات کااظہار انہوں نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔راولپنڈی دہشت گردی سے ثابت ہو گیا تمام تر ہنگامی حالات کے باوجود حکومت نے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا اور کوئی مذہبی اجتماع اور محفل محفوظ نہیں ہے،راولپنڈی دہشتگردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اس موقع پر اتحادی رہنماؤں مرکزی سیکرٹری مجلس وحدت المسلمین علامہ ناصر شیرازی، صدر منہاج القرآن علماء کونسل علامہ امداد اللہ قادری، سنی اتحاد کونسل کے رہنما مفتی محمد کریم، علامہ امتیاز کاظمی، مولانا ارشد قادری، غلام سعید احمد فاروقی، مولانا نعیم جاوید نوری، غلام اصغر صدیقی ،میر آصف اکبر و دیگر موجود تھے۔

رہنماؤں نے کہا کہ جو مدرسے دہشتگردی میں معاون ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور حکومت ڈبل رول چھوڑ دے، آئینی ترمیم کو خودکش حملہ کہنے والوں کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب نے مسکراتے ہوئے فوٹو سیشن کروا کر قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ ن لیگ دہشتگردوں کا سیاسی ونگ ہے، علامہ ناصر شیرازی نے کہا ایک طالبان وہ ہیں جن کے ہاتھ میں بندوق ہے اور کچھ طالبان ایوانوں کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں جو ان کے حق میں سیاسی مہم چلارہے ہیں۔

ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25Aکے تحت 5سے 16سال کے عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرتی تو ہمارے بچے نامعلوم مدرسوں اور غیر تصدیق شدہ نصاب پڑھنے پر مجبور نہ ہوتے۔انہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلاتاخیر تمام مدرسوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے کلیئرنس جاری کرے جو مدرسے رجسٹریشن سے انکار کریں انہیں کام جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں ، جان و مال کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومت اپنی یہ ذمہ داری آرڈیننس کے ذریعے عوام کی طرف شفٹ کررہی ہے، حکومت عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی تو قوم کی جان چھوڑ دے، انہوں نے کالعدم تنظیموں کی غلط فہرست میڈیا کو جاری کیے جانے کے حوالے سے حکومت کے غفلت پر مبنی مجرمانہ رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ حکومت اپنا ریکارڈ درست کرے اور غلط معلومات فراہم کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کاغذی کارروائیوں اور فرضی اعداد و شمار کی وجہ سے ہی آج پاکستان حالت جنگ میں ہے۔مدرسوں کی فنڈنگ کے مسئلہ کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو دہشت گردی کے خاتمہ کا ایکشن پلان کامیاب نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ 12 جنوری سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں ہر سکول اور ہر بچے کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، افسوس حکومت نے تعلیمی اداروں کو صرف اس لیے گارڈ مہیا نہیں کیے کہ اس کے پاس وسائل نہیں جبکہ دوسری طرف ایک ہی دن 31 ارب کا ٹیکسی پروگرام شروع کیا گیا اور دوسری طرف میٹرو بس راولپنڈی منصوبہ کیلئے اربوں روپیہ ایڈوانس جاری کر دیا گیا،حکمران موٹروے ، میٹرو بسوں، ٹیکسیوں اور فلائی اوورز کو اپنی پہلی ترجیح بنانے کی بجائے اس قوم کے بچوں اور ہر شہری کے جان مال کے تحفظ کو اولیت دے۔

انہوں نے کہا کہ نصاب میں تبدیلی کے لیے 1970 ،1979 اور 2001 میں بورڈ بنے اور سفارشات مرتب ہوئیں جن میں علمائے کرام بھی شامل تھے مگر افسوس نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے اتفاق رائے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، اگر اسی رویے کو اب بھی دہرایا گیا تو پھر دہشتگردی کو ختم کرنے کے اقدامات کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔