مذہبی اور سیکولر طبقے کو باہم دست و گریبان کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، فضل الرحمن خلیل

مذہبی جماعتوں سے ضابطہ اخلاق بنوا کر فرقہ واریت کو دفن کیا جا سکتا ہے

اتوار 18 جنوری 2015 13:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین۔ 18جنوری 2015ء)انصار الامہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہاہے کہ مذہبی اور سیکولر طبقے کو باہم دست و گریبان کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو خانہ جنگی ہونے کا احتمال ہے، نوازشریف نے ہمیشہ دائیں بازو کا ووٹ لے کر مایوس کیا، زرداری سے سیاسی اختلاف لیکن وہ سیاسی سوچ کا حامل شخص ہے، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، جنرل ضیاء الحق کی پالیسی اس وقت کا تقاضا تھی ، موجودہ صورتحال میں جنرل راحیل کی حکمت عملی بھی درست ہے لیکن طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے ، جذبات کی بجائے پورے ہوش کے ساتھ اقدامات اٹھائے جائیں، سانحہ پشاور بربریت کی انتہاء، مسلمانوں کی جگہ کفار کے بچے بھی ہوتے تو ایسی سفاکیت کی اجازت نہیں، اسلام دہشت گردی نہیں امن و آشتی کا مذہب ہے، ملکی مسائل کا حل اتحاد میں ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے شیعہ سنی اکابرین کے پاس جانے کیلئے تیار ہوں، آئین نے شخصی آزادی دی، کالعدم کہنے والے بتائیں کونسا غیر قانونی کام کیا، مذہبی طبقے کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ، ہر قسم کی دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں، حکومت دیوار سے نہ لگائے، داعش حقیقت کا روپ دھار چکی ،طالبان رہنما بھی شمولیت اختیار کررہے ہیں، فی الوقت پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ،امریکہ کی نظر میں ہر مذہبی شخص دہشت گرد ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین۔ 18جنوری 2015ء “ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ سانحہ پشاور ہم نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے کیونکہ اسلام ظلم و جبر نہیں بلکہ امن و آشتی کا درست دیتاہے آرمی پبلک سکول میں مسلما ن بچے تھے لیکن اگر وہاں کفار کے بچے بھی ہوتے تو اس طرح کی بربریت و ظلم کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے کہاکہ اس سانحہ کے بعد وزیراعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کو بلایا اور دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی طے کی لیکن افسوس کہ مذہبی طبقے کو یکسر نظر انداز کردیاگیاحالانکہ ہم ہمیشہ سے دہشت گردی کا شکار بھی رہے اور دہشت گردی کی سب سے زیادہ مخالفت بھی ہم ہی کرتے ہیں لیکن لسانیت و قومیت کے نام پر دہشت گردی کرنیوالے کیوں حکومت کو نظر نہیں آتے ۔

ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت مذہبی اور سیکولر طبقے کو باہم دست و گریبان کرنا چاہتی ہے یا پھر اس طرح کی کوئی سازش کی جارہی ہے حکومت ہوش کے ناخن لے اگر ایسا نہ کیاگیا تو خانہ جنگی ہونے کا احتمال ہے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ میاں نوازشریف نے ہمیشہ دائیں بازو کا ووٹ لے کر انہیں کو دھوکہ دیاہے اور اب بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن ہیں ۔

انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ آصف علی زرداری بہترین سیاستدان ہیں ان سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن وہ سیاسی سوچ کے حامل شخص ہیں۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات عالمی ایجنڈا ہے لیکن اس سلسلے میں سازش کو ناکام بنانے میں علمائے کرام نے کردار اداہے سانحہ عاشور راولپنڈی کے بعد تمام اکابر سے ملاقات کرکے معاملہ سلجھایا جبکہ اب بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے شیعہ ، بریلوی، دیوبند اور اہلحدیث کے اکابرکے پاس جانے کو تیار ہوں انہوں نے کہاکہ حکومت کو چاہیے اس معاملے پر اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کر ے اور ایسی متفقہ قانون سازی کی جائے جس پر تمام مکاتب فکر رضا مند ہوں۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ کالعدم جیسی اصطلاحوں کو نہیں مانتا کیونکہ آئین نے شخصی آزادی دی ہے اگر آئین میں کالعدم کا لفظ ہے تو بتایا جائے جبکہ دہشت گردکی تعریف بھی ہونی چاہیے مجھ پرملک میں کوئی ایک چھوٹا کا مقدمہ بھی درج نہیں بتایا جائے ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے اگر ہم مجرم ہیں تو حکومت عدالت سے رجوع کرے بے بنیاد پراپیگنڈہ بند کیا جائے ہم اس ملک کے پرامن شہری ہیں کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہمارا جینا ، مرنا سب کچھ پاکستان کیلئے ہے سیاستدانو ں کیلئے یہ ملک عارضی اور بیرون ملک جائیدادیں اصل وطن ہے لیکن ہمارے لئے سب کچھ اسی ارض وطن میں ہے ۔

انہوں نے سابق صدر جنرل ضیاء الحق اور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی بارے سوال کے جواب میں کہاکہ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی پالیسی حالات کے مطابق بالکل درست تھی اور وقت کا تقاضا بھی یہی تھا جوکچھ ضیاء الحق نے کیا اور اب موجودہ صورتحال جو ڈاکٹرائن جنرل راحیل شریف کی ہے وہ بھی درست ہے لیکن اس کے طریقہ کار سے اختلاف ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم بھی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں جہاں طاقت کا استعمال ہورہاہے وہا ں ہمیں مائنڈ سیٹ کو بھی تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ فوجی عدالتیں تو بنائی جارہی ہیں لیکن جو خود کش حملہ آور آتاہے وہ مرنے کیلئے پہلے سے تیار ہوتاہے ہمیں اس ذہن کو تبدیل کرنا ہوگا اور انہیں نارمل زندگی کی جانب لانے کیلئے بھی اقدامات کرنا ہونگے ہمیں طاقت کے ساتھ ساتھ تدبر سے کام کرنا ہوگا۔

ایک اور سوال پر مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہاکہ مولانا عبدالعزیز ایک مدرسہ کے مہتمم سے زیادہ کچھ نہیں ان کی اپنی سوچ ہے مگر اسے کسی مکتبہ فکر کی سوچ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ داعش کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ داعش بارے میڈیا کے ذریعے ہی معلومات ملیں داعش اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے لیکن فی الوقت پاکستان کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ۔

وال چاکنگ اور طالبان رہنماؤں کی جانب سے داعش کی جانب جھکاؤ بارے مولانافضل الرحمن خلیل نے کہاکہ تحریک طالبان کے رہنما داعش میں شامل ہورہے ہیں ہمیں اس حوالے سے اپنی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی تاکہ خطرہ سے پہلے اس تدارک کیا جائے لیکن افسوس ہم اس وقت پالیسیاں بناتے ہیں جب پانی ہمارے سر پر چڑھ آتاہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ جو شخص مذہب کا نام لے وہ امریکہ کی نظر میں دہشت گرد ہے اس حوالے سے امریکی عہدیداروں سے براہ راست کہاکہ بتائیں ہمارا کیا قصور ہے کہ آپ ہمیں بدنام کررہے ہیں مگر ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا کیا اسلام کی تبلیغ کرنا یا مسلمان ہونا دنیا میں جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خلاف تو کسی سے لڑائی جھگڑے کا کوئی معمولی سے معمولی کیس بھی درج نہیں۔