ادویات کی قیمتیں منجمد کرنے سے سرمایہ کاری اور شرح منافع تیزی سے کم ہوگیا، چیئرمین پی پی ایم اے سعید اللہ والا، ڈاکڑ قیصر وحید کا ،

پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی 28ادویات میں سے 61 فیصد دوائیں بھارت اور حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے مقابلے میں سستی ہیں

بدھ 21 جنوری 2015 23:12

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21جنوری2015ء) پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی 28ادویات میں سے 61 فیصد دوائیں بھارت اور حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے مقابلے میں سستی ہیں۔ قیمتوں میں مناسب اضافہ نہ ہونے کے باعث ادویہ سازی کی صنعت میں نہ صرف شرح منافع تیزی سے کم ہوئی ہے بلکہ اس میں نئی سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے۔ اس صورت حال کے باعث پاکستان میں ایف ڈی اے کا منظورشدہ کوئی فارماسوٹیکل پلانٹ موجود نہیں ہے جبکہ ایسے پلانٹس کی تعداد بھارت میں 90 ، چین میں 22 اور بنگلہ دیش میں 4 ہے۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان فارما سوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے)کے چیئرمین سعید اللہ والا اور دیگر عہدیداران نے بدھ کو مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر پی پی ایم اے کے دیگر عہدیدارا ن زاھد سعید، ہارون قاسم اور ڈاکٹر شیخ قیصر وحیدبھی موجود تھے۔ سعید اللہ والا نے کہا کہ لوگوں میں ادویہ سازی کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ یہ صنعت بہت منافع بخش ہے اور اس بہت بڑا منافع کمارہی ہے جو بالکل غلط ہے۔

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں یہاں ادویات مہنگی ہیں ۔ یہ دعویٰ بھی سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی 28 ادویات میں سے 61 فیصد دوائیں بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں سستی ہیں۔ صرف 39 فیصد ادویات ایسی ہیں جن کی قیمتیں بھارت سے زائد ہیں۔ انہوں نے ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کی مدد سے صحافیوں کو ادویات کی قیمتوں میں فرق بھی واضح کیا۔

چیئرمین پی پی ایم اے نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں مناسب اضافہ انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ صنعت مزید خسارے سے دوچار ہو جائے گی۔ 2001 میں قیمتوں کو روکنے کے بعد سے ادویات کی تیاری اور یوٹیلٹی سروسز، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونی کیشن اور دیگر اخراجات میں 300 فیصد سے زائد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ 2001 سے 2013 کے عرصے میں جنرل آئٹمز کی قیمتیں 467، فیول 53، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونی کیشن 90، نان فوڈ آئٹمز 63 جبکہ کھانے کی چیزیں جیسے آٹا 338، چینی 155، پیٹرول 230، تازہ دودھ 538 اور مرغی کی قیمتوں میں 316فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اس صورت حال میں ادویہ سازی کی صنعت کیسے پرانی قیمتوں پر کاروبار جاری رکھ سکتی ہے۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والی پاکستان بزنس ڈویلپمنٹ پلان اینڈ نیشنل ٹریڈ کوریڈور سیکٹر اسٹریٹیجی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سعید اللہ والا نے بتایا کہ ادویہ سازی کی صنعت میں منافع کی شرح تیزی سے کم ہورہی ہے جبکہ ایف ڈی اے کے تصدیق شدہ پلانٹس میں بھی کوئی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سال 2006 سے 2008 کے دوران گلیکسو اسمتھ کلائن کی شرح منافع 22 سے کم ہو کر 14،ایبٹ لیبارٹریز پاکستان کا 23سے کم ہو کر 6 اور وائتھ پاکستان لمیٹیڈکے منافع کی شرح 20سے کم ہو کر 10فیصدپر آگئی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ صنعت کس تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہے۔ عالمی سطح پر ادویہ سازی کی صنعت میں منافع کی شرح 30فیصد تک ہے جس کا پاکستان میں صرف خواب ہی دیکھاجا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکی ادارے ایف ڈی اے کے تصدیق شدہ اداروں کی تعداد بھارت میں 90، اٹلی میں 40، چین میں 22، تائیوان 10، بنگلہ دیش 4 اور اردن میں 3 ہے۔ پاکستان میں ایسا ایک بھی پلانٹ موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں قیمتوں میں مناسب اضافہ نہ ملنے کے باعث لازمی ادویات کی دستیابی کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لازمی ادویات کی دستیابی کی شرح ٹیونیشیا میں سرکاری سطح پر 65 اور نجی سطح پر 95، سوڈان میں سرکاری سطح پر 50 اور نجی سطح پر 90، اردن میں سرکاری سطح پر 28 اور نجی سطح پر 80، کویت میں سرکاری سطح پر 18 اور نجی سطح پر 5،یمن میں سرکاری سطح پر 8 اور نجی سطح پر 73 جبکہ پاکستان میں سرکاری سطح پر صرف 4 جبکہ نجی شعبے میں یہ شرح 25 فیصدتک ہے جو انتہائی شرمنا ک ہے۔

سعید اللہ والا نے بتایا کہ گزشتہ 15 سالوں میں 100ادویہ سازی کی فیکٹریاں بند ہو چکی ہے جبکہ مزید کے بند ہونے کا خدشہ ہے ۔ یہ صنعت براہ راست 5لاکھ افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے۔ قیمتوں میں اضافے میں مزید تاخیر سے یہ صورت حال مزید گھمبیر ہو جائے گی اور مارکیٹ میں معیاری اور بروقت ادویات کی دستیابی مشکل تر ہو جائے گی۔ اس سے ادویات کی اسمگلنگ بھی بڑھے گی جو ملک کے لاکھوں مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے پالیسی بورڈ نے بھی سفارش کی تھی کہ ادویات کی قیمتوں میں 97 فیصد تک اضافہ ہونا چاہیے۔ حکومت نے 2013 میں 15 کیسز میں عارضی اضافے کی منظوری دی تھی لیکن وہ بھی واپس لے لی گئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر ادویہ سازی کی صنعت میں فوری طور پر چار بڑے اقدامات کرے۔ قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا جائے اور ان میں مناسب اضافہ کیا جائے تاکہ لوگوں کی صحت بہتر ہو اور صنعت کو بھی سہارا ملے۔

ایف ڈی اے سے تصدیق شدہ پلانٹ لگانے والوں کو مراعات دی جائیں تاکہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہو۔ کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ کی لامحدود اجازت دی جائے اور حکومت اعلیٰ معیار کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی بنائے اور اس پر عمل بھی کرے۔ پی پی ایم اے نے وزیراعظم ، وزیر خزانہ اور صحت کے وزرا سے مطالبہ کیاہے کہ وہ تیزی سے زبوں حالی کا شکار ہوتی ہوئی ادویہ سازی کی صنعت کو مزید خسارے سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔

متعلقہ عنوان :