جنرل ہسپتال پاکستان میں رعشہ، پٹھوں کے کھچاؤ اور پارکنسن کے جدید طریقہ علاج ڈی بی ایس سے آپریشن کرنے والا پہلا ہسپتال بن گیا

پیر 9 فروری 2015 17:03

لاہور ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 09فروی 2015ء) جنرل ہسپتال پاکستان میں رعشہ، پٹھوں کے کھچاؤ اور پارکنسن کے جدید طریقہ علاج ڈی بی ایس سے آپریشن کرنے والا پہلا ہسپتال بن گیااور اس مرض میں مبتلا پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے چھ مریضوں کو آپریشن کے لئے ایل جی ایچ میں داخل کر لیا گیا ۔ پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر خالد محمود 17 فروری تک ان مریضوں کے آپریشن مکمل کر لیں گے ۔

اس بارے میں پرنسپل پی جی ایم آئی و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر انجم حبیب وہرہ نے بتایا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ جنرل ہسپتال لاہور میں رعشہ اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا ڈی بی ایس کے ذریعے کامیاب آپریشن کئے جا رہے ہیں ۔ اس طریقہ علاج میں مریض کے دماغ کے اندر توانائی پہنچا کر مرض کا علاج کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایک مریض کے ڈی بی ایس آپریشن کے لئے چھ تا آٹھ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر خالد محمود نے اس مرض کے علاج کے لئے امریکہ اور برطانیہ سے خصوصی تربیت حاصل کی ہے جبکہ جنرل ہسپتال میں رعشہ ، پٹھوں کے کھچاؤ اور پارکنسن کے طبی معائنے کے لئے ہفتے کا دن مخصوص کیا گیا ہے ۔پچھلے دنوں مریدکے سے تعلق رکھنے والے شکیل احمد کا پہلے مریض کے طور پر ڈی بی ایس طریقہ سے کامیاب آپریشن کیا گیا ۔

شکیل احمد نے صحت یابی کے بعد بتایا کہ وہ اس مرض سے نجات حاصل کرنے سے مایوس ہو چکا تھا کیونکہ بیرون ملک اس کے علاج پر تقریبا ایک کروڑ سے زائد لاگت آتی ہے ۔ شکیل احمد نے کہا کہ وہ وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے جنرل ہسپتال میں سرکاری خرچ سے اس کا علاج کرایا ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتال میں یہ سہولت ایک نعمت سے کم نہیں ۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر انجم حبیب وہرہ نے کہا کہ اب ایسے مریضوں کو علاج کے لئے بیرون ملک نہیں جانا پڑے گا؛ و زیر اعلی پنجاب کے ویژن کے مطابق صوبے میں ہیلتھ کے شعبے کی ترقی اور طبی میدان میں جدید تحقیق کو آگے بڑھانے کے لئے پی جی ایم آوی میں سٹیٹ آف دی آرٹ سنٹرل ریسرچ لیب قائم کی جائے گی جس سے پوسٹ گریجوایشن کرنے والے ڈاکٹرز کو طب کے میدان میں جدید ریسرچ سے آگاہی حاصل ہو گی اور انہیں ملکی و بین الاقوامی یونیورسٹیز میں ہونے والی تحقیق سے بھی استفادہ کرنے کا موقع میسر آئے گا۔

متعلقہ عنوان :