مہینوں پہلے ہی بیماریوں اور وباوٴں کا پتا چل جائے گا

ریموٹ سینسنگ کی مدد سے ان مقامات کی نشاندہی ہو جائیگی جہاں بیماریاں پنپ رہی ہونگی‘ تحقیق

منگل 17 فروری 2015 13:06

کینبرا (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17فروی 2015ء) ایک تازہ تحقیق کے مطابق سائنسدان اب سیٹیلائٹ کے ذریعے وائرس اور طفیلیہ کیڑوں کا تعاقب کر سکیں گے۔ اس طرح کئی ماہ قبل ہی معلوم ہو جائے گا کہ کس علاقے میں کونسی بیماری یا کونسی وبا پھیلنے والی ہے۔آسٹریلیا میں کینبرا یونیورسٹی کے صحت سے متعلق ایک شعبے کے سربراہ آرچی کلیمنز نے بتایا کہ ریموٹ سینسنگ کی مدد سے اْن مقامات کی نشاندہی ہو جائے گی کہ جہاں بیماریاں پنپ رہی ہوں گی۔

”یہ معلومات فیصلہ ساز اداروں کے لیے کارآمد ہو گی تاکہ وسائل کو اسی جگہ پر استعمال کیا جائے جہاں ان کی اشد ضرورت پڑ سکتی ہے۔“ خاص طور پر کم ترقی یافتہ ممالک میں ٹروپیکل یا گرم اور جنگلاتی علاقوں میں طفیلیہ کیڑوں کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں سے ہر سال کئی لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے کچھ بیماریاں تو انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔

امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سان خوسے میں ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے آرچی کلیمنز نے مزید بتایا کہ سائنسدان اْس ڈیٹا کو استعمال کر رہے ہیں، جو اْنہیں درجہ حرارت، مٹی میں نمی، زمین پر موجود پودوں کی مختلف اقسام کے علاوہ بارش یا برف باری کے بعد سیٹیلائٹ کے ذریعے موصول ہوتا ہے۔” یہ لوگ اس ڈیٹا کا ایک کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے جائزہ لیتے ہیں۔

اس کے ذریعے ایک ایسا نقشہ تیار کر لیا گیا ہے، جو اْن ممالک میں باآسانی دستیاب ہو گا، جہاں بیماریوں کے انسداد کے حوالے سے وسائل محدود ہیں۔امریکی محقق کینتھ لنتھکم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس طرح سائنسدان ماحولیات اور خاص طور پر عالمی آب و ہوا کے اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے متعدد بیماریوں کے پھیلنے سے پہلے ہی ان کے بارے میں انتباہ جاری کر دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا ”سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والا ڈیٹا مچھروں سے پھیلنے والی بیماروں کے اضافے کی روک تھام میں بہت کارآمد ہو سکتا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح ” ہم دو سے پانچ مہینے قبل ہی لوگوں کو ممکنہ بیماریوں سے آگاہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے تاکہ قبل از وقت ہی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں۔کینتھ لنتھکم نے رفٹ ویلی بخار کے بارے میں بتایا، ”میرے اور میری ٹیم کے تجربات کے مطابق یہ بخار گائے، بکری یا دنبوں کو ہوتا ہے اور مچھر متاثرہ جانوروں سے اسے انسانوں میں منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

“ یہ بیماری افریقہ اور جزیرہ نما عرب کے علاقوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیلاب یا شدید بارشوں کے بعد مچھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے اس بارے میں چند ماہ پہلے ہی خبردار کیا جا سکتا ہے۔