شوگر ملز مالکان کی طرف سے زمینداروں کو گنے کی ادائیگی بروقت نہ ہونے پر کاشتکاروں کی گنے کی کاشت میں عدم دلچسپی

جمعرات 5 مارچ 2015 13:05

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05مارچ۔2015ء) شوگر ملز مالکان کی طرف سے زمینداروں اور کاشتکاروں کو گنے کی ادائیگی بروقت نہ ہونے سے ملک بھر میں کاشتکاروں نے گنے کی کاشت کم کرکے عدم دلچسپی کا اظہار کردیا۔ اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05مارچ۔2015ء کے مطابق ملک بھر میں اس وقت85 کے لگ بھگ شوگر ملز چینی تیار کررہی ہیں جبکہ پنجاب میں چینی کے 45 کارخانے قائم ہیں۔

گذشتہ سالہ 19 لاکھ ایکڑ رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی مگر زمینداروں اور کاشتکاروں کو ملز مالکان کی طرف سے بروقت گنے کی ادائیگی نہ ہونے پر کاشتکاروں نے رواں سال گنے کی کاشت میں دلچسپی نہ لی جس کی وجہ سے گذشتہ سال کی نسبت اس سال 2 لاکھ ایکڑ پر گنا کم کاشت کیا گیا اور آئندہ مزید کمی کی توقع ہے اور کاشتکاروں اور زمینداروں کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان ایک تو گنے کی قیمت انہیں کم دے رہے ہیں دوسرا ان پر یہ ظلم ہورہا ہے کہ انہیں بروقت ادائیگی نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

اب بھی زمیندروں کا اربوں روپیہ ملز مالکان کے ذمے واجب الاداء ہے۔ دوسری طرف شوگر ملز مالکان کا کہنا ہے کہ چینی کے نرخ کم ہونے کی وجہ سے ان کے اخراجات پورے نہیں ہورہے جبکہ حکومت چینی کے نرخ بڑھانے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05مارچ۔2015ء کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض شوگر ملز مالکان اپنی فیکٹریاں فروخت کرناچاہتے ہیں تاکہ شوگر ملوں کو فروخت کرکے سرمایہ ملک سے باہر منتقل کیا جاسکے۔

پاکستان میں اس وقت گنے کی 23 اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ 22 فیصد گنا جنوبی پنجاب میں اعلی کوالٹی کا پیدا ہوتا ہے جس کا معیار دنیا بھر میں سب سے بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ دریں اثناء کین کمشنر اور زرعی ماہرین رانا ذوالفقار علی خان نے اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05مارچ۔2015ء کو ایک ملاقات میں بتایا کہ اس وقت گنا کاشت کرنے کی جو صلاحیتیں کاشتکاروں میں پائی جارہی تھیں وہ روز بروز کم ہورہی ہیں۔

اگر کاشتکاروں اور زمینداروں کو گنے کی قیمت کی ادائیگی بروقت ادا نہ ہوئی تو آئندہ سال مزید دو سے تین لاکھ ایکڑ گنے کی کاشت میں کمی واقع ہوگی جس سے ملک بھر میں چینی کا بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ قبل ازیں ملک بھر میں 19 لاکھ ایکڑ اراضی پر گنا کاشت کیا جاتا تھا جو کم ہوکر 17 لاکھ ایکڑ ہوگیا ہے اور آئندہ سال اس میں مزید دو سے تین لاکھ ایکڑ کمی کا امکان ہے۔