تپ دق قابل علاج‘ مریض سے کنارہ کشی کی بجائے حوصلہ افزائی کی جائے‘پرنسپل پی جی ایم آئی

پیر 23 مارچ 2015 17:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23مارچ۔2015ء ) پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و امیر الدین میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پروفیسر انجم حبیب وہرہ نے کہا ہے کہ طبی تحقیق کے نتیجے میں ماضی کا جان لیوا مرض ٹی بی آج قابل علاج بن گیا ہے،تپ دق کے مریض باقاعدہ علاج اور احتیاطی تدابیر سے 100فیصد صحت یاب ہوجاتے ہیں،لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ مرض کو چھپانے کی بجائے علاج کیلئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مفت سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو ٹی بی ڈاٹس پروگرام میں رجسٹرڈ کرائیں تاکہ معاشرے کو اس موذی مرض سے چھٹکارہ دلایا جاسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹی بی سے پاک پنجاب پروگرام کے تحت لاہور جنرل ہسپتال میں مریضوں کے علاج اور عالمی دن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس مرض کے پھیلنے کی وجوہات میں کچھ انسانی عادات اور چند سماجی معاشی مسائل بھی سرفہرست ہیں۔ تمباکو نوشی کرنیوالے خواتین وحضرات زیادہ تر پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مبتلا ہوکر زندگی کی خوشیوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور دنیا میں ہر 20سیکنڈ کے بعد ایک مریض کا اضافہ ہوتا ہے۔

اسی طرح سرد ‘مرطوب‘ تاریک وبوسیدہ کمروں میں رہنے والے ‘گندے پانی کے جوہڑوں کے گرد آباد کچی بستیوں کے غریب مکین جنہیں صفائی ‘ علاج ‘اچھی خوراک وصاف پانی کی سہولیات میسر نہیں وہ بھی تپ دق میں مبتلا ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ تپ دق کے مریض ادویات باقاعدگی کے ساتھ استعمال نہیں کرتے اور بہت سے مریض علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے بیماری پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے حکومت نے ٹی بی ڈاٹس پروگرام گزشتہ کئی سالوں سے شروع کر رکھا ہے جس میں محکمہ صحت کے نمائندے مریض تک پہنچتے ہیں اور انہیں براہ راست ادویات استعمال کرنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ مانیٹر بھی کرتے ہیں تاکہ کورس مکمل کرنے سے پہلے کوئی مریض ڈراپ نہ ہونے پائے۔پروفیسر انجم حبیب وہرہ نے کہا کہ مریض کے لواحقین کم علمی اور معلومات نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو تنہا کردیتے ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔

مریض سے کنارہ کشی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس میں بیماری کیخلاف جدوجہد کرنے کی ہمت اور قوت ارادی مضبوط ہوسکے۔پرنسپل پی جی ایم آئی نے مزید کہا کہ تپ دق کا مرض جسم کے کسی بھی عضو میں ہوسکتا ہے لیکن مریضوں کی اکثریت پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مبتلا ہوتی ہے ایسے مریضوں کے تھوک اور بلغم وغیرہ کو مٹی میں دبانا چاہئے اور انہیں جگہ جگہ تھوکنے کی بجائے کسی ایک برتن جس میں چونا پڑا ہو اس میں تھوکنا چاہئے تاکہ جراثیم اردگرد کے لوگوں کو متاثر نہ کرسکیں۔

انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے نومولود بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس ضرور کرائیں تاکہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں اور اچھی نشوونما پاسکیں۔انہوں نے کہا کہ تپ دق میں مبتلا ماں بلاخوف وخطر اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے اس طرح نومولود کا تپ دق میں مبتلا ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔