کراچی آپریشن کسی سیاسی جماعت یا طبقے نہیں جرائم پیشہ افراد کیخلاف ہے ،وزیراعلیٰ سندھ

جمعرات 26 مارچ 2015 17:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26مارچ۔2015ء) وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی آپریشن کسی سیاسی جماعت یا طبقے کے خلاف نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہے ۔ کراچی آپریشن کے دوران رینجرز اور پولیس کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے اغواء برائے تاوان کے واقعات تقریباً ختم اور ٹارگٹ کلنگ میں 60فیصد کمی آئی ہے ۔اسٹریٹ کرائم میں بھی نمایاں کمی آئی ہے ۔

حکومت نے پولیس کا بجٹ گزشتہ سال کے 32ارب کے مقابلے میں اس سال 60ارب روپے کا کردیا ہے ،جس سے ساز و سامان کی خریداری کے ذریعہ پولیس کو مضبوط کیا جائے گا ۔وفاق نے 10ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن تاحال نہیں ملے ہیں ۔گورنر سندھ تبدیل ہورہے ہیں یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے ۔پولیس کی بہتر کارکردگی کے باعث تین اہم کیسز جن میں سانحہ بلدیہ ٹاوٴن ،سانحہ شکار پور اور ڈاکٹرخالد محمود کا قتل شامل ہیں کے ملزمان گرفتار ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)

۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو وزیر اعلیٰ ہاوٴس میں پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔اس موقع پر سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن ،سیکرٹری داخلہ مختار سومرو ،وزیراعلیٰ سندھ کے معاونین وقار مہدی ،راشد ربانی ،آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی اور دیگر بھی موجود تھے ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم کے ساتھ امن و امان کے حوالے سے میٹنگ ہوئی ،جس میں کراچی آپریشن میں سندھ حکومت ،پولیس اور رینجرز کی کارکردگی کو سراہا گیا ۔

یہ آپریشن ستمبر 2013کو تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے شروع ہوا ۔کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کوئی قابل اعتراض بات تھی ۔ہمارا آپریشن کسی جماعت یا گروہ کے خلاف نہیں ،مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف ہے ۔آپریشن کا آغاز اپنی فورسز پر انحصار کرکے کیا ۔قوم کی دعاوٴں اور میڈیا کے تعاون کی وجہ سے صوبائی حکومت نے بہتر نتائج حاصل کرلیے ہیں اور بڑے جذبے کے ساتھ ہم آپریشن کو آگے بڑھا یا ہے ۔

آصف علی زرداری کی مشاورت اور سرپرستی بھی حاصل رہی ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ آپریشن کے آغاز پر ہمارے چار بنیادی اہداف تھے ،جن میں ٹارگٹ کلنگ ،اغواء برائے تاوان ،بھتہ خوری اور دہشت گردی کا خاتمہ ۔حکومت نے پہلے قوانین کے تحت رینجرز کو اختیارات دیئے اور پھر تحفظ پاکستان ایکٹ کے ذریعہ رینجرز کو مزید اختیارات مل گئے اور یہ ایکٹ ملکی حالات کے مدنظر رکھ کر لایا گیا ۔

اس قانون کے بعد رینجرز اور پولیس کے پاس ملزم کو 90دن تک تفتیش کے لیے رکھنے کی مہلت ہے ۔بعد ازاں سب کی مشاورت سے فوجی عدالتیں قائم ہوئیں ،جس میں یہ طے ہوا کہ فوجی عدالتوں میں جانے والے کیسز کا فیصلہ یہ عدالتیں ایک ہفتے کے اندر کریں گی ۔حالانکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر بھی ایک ماہ کے اندر فیصلے کرنے کی پابندی ہے ۔لیکن مقدمات سالوں سے لٹکے ہوئے ہیں ۔

ہم نے صوبے میں امن و امان کو بہتر کرنے کے لیے 10انسداد دہشت گردی کی مزید عدالتیں قائم کی ہیں ۔پارلیمنٹ یا ہم نے جو بھی کیا یہ ملک کے مفاد میں کیا ہے ۔فوجی عدالتوں کے لیے ہمارے پاس 82کیسز تھے ۔جانچ پڑتال کے بعد 64کیسز بھیج دیئے گئے ہیں ۔21ویں ترمیم کے بعد اپیکس کمیٹیاں بھی بنی ہیں ۔وفاق نے اپنا قومی ایکشن پلان بنایا اور ہم نے اپنا 14نکاتی ایکشن پلان بنایا ،جس کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کا خاتمہ کرنا تھا ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد کارکردگی میں بہتری آئی ہے ۔رینجرز اور پولیس کی بہتر کارکردگی کے باعث کئی اہم بلائنڈ کیسز کے ملزمان کو گرفتار یا مارا گیا ہے ۔سانحہ شکار پور کے بیشتر ملزمان گرفتار ہوئے اور ماسٹر مائنڈ بلوچستان میں مارا گیا ۔جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قاتل بھی گرفتار ہوئے ہیں اور عدالت میں ان کا چالان بھی پیش کردیا گیا ہے حالانکہ گرفتار ہونے والوں میں بااثر افراد بھی شامل تھے ۔

سانحہ بلدیہ ٹاوٴن کا اہم ملزم شکیل عرف چھوٹو گرفتار ہوا ہے جو اس سانحہ کا اصل ملزم ہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران مجموعی طور پر 222افسران و جوان دہشت گردی کا نشانہ بنے ۔ہم نے ان کا معاوضہ پانچ لاکھ سے بڑھا کر 25لاکھ کردیا ہے اور پولیس بجٹ میں بھی اضافہ کردیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاق میں ہمیں آپریشن کے آغاز پر 10ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جو اب تک فراہم نہیں کیے گئے ہیں ۔

وزیراعظم کو اس حوالے سے متعدد بار یاددہانی کرائی گئی ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آپریشن کے حوالے سے ہونی والی پیش رفت میں اسٹیک ہولڈرز اور پارٹیوں کو بھی ہم اعتماد میں لیتے ہیں ۔اب تک جو نتائج ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں ۔ہم نے صوبے میں قیام امن کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اپنے ترقیاتی بجٹ میں سے کٹ لگاکر پولیس کے بجٹ میں اضافہ کردیا ہے ۔

امن و امان کی بہتر صورتحال کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے اغواء برائے تاوان پورے سندھ میں ختم ہوچکا ہے ۔کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دو واقعات اب ہمارے لیے بہت اہم ہیں ،جن میں نارتھ ناظم آباد میں رینجرز کی گاڑی پر خودکش حملہ اور بوہرہ برادری کی مسجد پر دھماکے ،ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے امید ہے کہ جلد کامیابی ملے گی ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے گواہوں کو تحفظ دینے کے لیے قوانین بنائے ۔یہی وجہ ہے کہ صحافی ولی خان بابر کے قاتلوں کو سزا ملی ۔اس سے پہلے گواہوں کو تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مقدمہ ہی نہیں کرتے تھے اور اب لوگ تعاون کررہے ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ میں 60فیصد کمی آئی ہے۔دہشت گردی میں بھی نمایاں کمی آئی ہے ۔آپریشن کے دوران 800سے زائد دہشت گرد مارے گئے ۔

1542ٹارگٹ کلرز اور539دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں ۔427بھتہ خور اور 1978دیگر جرائم میں ملوث افراد گرفتار ہوئے ۔القاعدہ کے 6کارکن مارے گئے اور 6گرفتار ہوئے ۔کالعدم تحریک طالبان کے152دہشت گرد مارے گئے اور 154گرفتار ہوئے ۔لشکر جھنگوی کے 9دہشت گرد مارے گئے اور 10گرفتار ہوئے ۔کالعدم سپاہ صحابہ کے 18گرفتار ہوئے اور 2مارے گئے ۔دیگرکالعدم جماعتوں کے بھی سیکڑوں لوگ گرفتار ہوگئے ہیں ۔

لاوٴڈ اسپیکر کے تحت 367کیسز درج ہوئے اور 145افراد کو نفرت آمیز تقاریر کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ۔اسی طرح نفرت آمیز مواد استعمال کرنے پر 18افرا د گرفتار ہوئے ۔افغان نیشنل 411کیسز میں 959افراد گرفتار ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ دیگر 2092کیسز آئے ،جن میں 1530افراد گرفتار ہوئے ۔وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ روز کے اجلاس میں گورنر سندھ کی عدم شمولیت کی کوئی بڑی وجہ نہیں اور نہ ہی کسی منصوبہ بندی کے تحت ایسا ہوا ہے ۔

پروٹوکول کے مطابق گورنر سندھ وزیراعظم کا ایئرپورٹ ،گورنر ہاوٴس یا تقریب کی جگہ پر استقبال کرتا ہے ۔تاہم میرا پروٹوکول یہ ہے کہ میں ان کا ایئرپورٹ پر استقبال کروں اور ان کے ساتھ رہوں ۔انہوں نے کہا کہ اپیکس کمیٹی کا کوئی باقاعدہ اجلاس نہیں تھا ۔شیڈول کے مطابق میری اور چیف سیکرٹری کی امن و امان کے حوالے سے ملاقات کی تھی ۔تاہم کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز سندھ بھی اس میں شامل ہوئے اور امن و امان کے حوالے سے بات ہوئی ۔

حکومت نے وزیرستان میں کامیاب آپریشن کیا جس پر قوم کو اطمینان ہے ۔وزیراعظم کراچی آپریشن پر مطمئن ہیں ۔ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کے وفد کی وزیراعظم سے ملاقات طے تھی یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے ۔لیکن ہمارے پاس جو آفیشل پروگرام آیا اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔رینجرز جو مختلف بیانات جاری کرتی ہے اس کے حوالے سے ان سے ہی پوچھا جائے ۔

ایم کیو ایم دہشت گرد جماعت ہے یا نہیں اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں سمجھتا ۔ایم کیو ایم کو کراچی اور سندھ کے مختلف شہری علاقوں کا مینڈیٹ حاصل ہے ۔یہ معاملہ وفاق کا ہے اور وفاق ہی بہتر بتاسکتا ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ شہر میں جہاں کہیں بھی بیریئرز لگے ہوئے ان کو ہٹارہے ہیں اور میں نے بیریئرز ہٹانے کے حوالے سے کوئی تحفظات کا اظہار نہیں کیا تھا ۔

جہاں تک رہی بلاول ہاوٴس کی بات تو یہ بیریئرز نہ تو ہم نے اور نہ ہی بلاول ہاوس والوں نے لگائے ہیں ۔یہ سکیورٹی اداروں نے خدشات اور دھمکیوں کے باعث لگائے ہیں اور ان سے عام لوگ متاثر نہیں ہورہے ہیں ۔یہ ایسے بیریئرز نہیں جن سے گلیاں بند کردی گئی ہوں اور لوگ پوچھ گچھ کے بعد اندر جاتے ہوں ۔بلاول ہاوٴس اور پرویز مشرف کی رہائش گاہوں کو اس لیے بھی سکیورٹی دی جارہی ہے کہ یہ سابق صدور کی رہائشگاہیں ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت میں شمولیت کے حوالے سے میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم ایم کیو ایم کو شامل نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ کہا تھا کہ سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت سے متعلق متحدہ سے ہی پوچھا جائے ۔

متعلقہ عنوان :