بلوچستان میں ایٹمی دھماکوں کے بعد کینسر کے مریضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے،صوبائی اسمبلی کا اعتراف

جمعرات 9 اگست 2007 20:17

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9اگست۔2007ء) بلوچستان اسمبلی نے اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں ایٹمی دھماکوں کے بعد کینسر کے مریضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اعتراف ایک قرارداد میں کیا گیا جو حزب اختلاف کی جماعت پشتونخوا میپ کے رکن سردار اعظم موسیٰ خیل نے پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوردی ۔ قرار داد میں سفارش کی گئی ہے کہ صوبائی حکومت مرکزی حکومت سے رجوع کریں ہ وہ بلوچستان کیلئے کالے یرقان، کینسر اور دیگر بیماریوں کے مختص فنڈ بڑھائے ۔

جمعرات کے روز اسمبلی اجلاس میں کل5 قراردادیں پیش کی گئی جن میں سے 4قراردادوں کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔اجلاس میں طالب علموں کو ماہانہ200روپے وظیفہ، مقرر کرنے سے متعلق نیشنل پارٹی کے رحمت علی بلوچ کی قرارداد کو حکومت کی مثبت یقین دہانیوں پر نمٹا دیا گیا ۔

(جاری ہے)

سردار اعظم موسیٰ خیل کی جانب سے عبدالرحیم زیارتوال نے ایٹمی دھماکوں کے باعث کینسر کے مریضوں میں اضافے سے متعلق قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت مرکزی حکومت سے رجوع کرے کہ محکمہ مرکزی زکواة اسلام آباد کو پابند کیا جائے کہ کوئٹہ شہر کے تین بڑے ہسپتالوں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال ،سول ہسپتال ،سینار ہسپتال برائے کینسر میں صوبائی سینٹرل زکواة فنڈ کے تعاون سے محکمہ سماجی بہبود جو غریب عوام کی مدد کر رہی ہے ۔

زکواة کے طریق کار کے مطابق ادویات ، مختلف بیماریوں کے ٹیسٹ سکین ایم آر آئی اور دیگر سہولیات سے صوبہ کے غریب عوام استتفادہ کررہے ہیں ہسپتالوں کو جو فنڈ فراہم کیا جارہا ہے وہ بہت کم ہے یعنی صوبہ کے عوام کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا لہٰذا سینٹرل زکواة اسلام آباد کوئٹہ کے ہسپتالوں کا موجودہ انتہائی کم فنڈزکو چار گناہ بڑھا دے۔کیونکہ اس وقت بولان میڈیکل کالج ہسپتال کو 60لاکھ ،سول ہسپتال کو60لاکھ اور سینار ہسپتال کو 50لاکھ روپے دیئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے میں کالا یرقان ،کینسر اور دیگر بیماریوں میں تقریباً چالیس فیصد عوام مبتلا ہیں اس کے علاوہ بلوچستان میں ایٹمی دھماکے کے بعد صوبے میں کینسر کے مریضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ان کے علاج و معالجہ پر کافی اخراجات برداشت کرنے کے پیش نظر موجودہ فنڈ انتہائی کم ہے۔

ایوان نے اتفاق رائے اس قرار داد کو منظور کرلیاجبکہ نیشنل پارٹی کے رکن رحمت علی بلوچ نے ایوان میں قرارداد پیش کیا جس میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ صوبے میں تعلیم کے فروغ کے پیش نظر پنجاب کے طرز پر خصوصی پیکج کے تحت میٹرک کی سطح تک مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ 80فیصد حاضری پوری کرنے والیطالب علموں کو دو سو روپے ماہانہ وظیفہ دے۔

قرار داد پر صوبائی وزیرخزانہ احسان شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم ترقی کی دوڑ میں ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت کی پوری کوشش ہے کہ صوبے میں تعلیم فروغ پائے اس ضمن میں اقدامات کئے جارہے ہیں حکومت نے دو مرتبہ میٹرک تک تعلیم مفت دینے کا اعلان کیا اور میٹرک تک طلباء سے کوئی فیس وصول نہیں لی جائے گی انہوں نے کہا کہ جہاں تک طالب علموں کو ماہانہ دو سو روپے وظیفہ دینے کا تعلق ہے تو محکمہ خزانہ وار تعیم بیٹھ کر اس تجویز پر غور کریں گی پھر اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا یہ تجویز قابل عمل ہے یا نہیں ۔

حکومت کی مثبت یقین دہانی کے بعد سپیکر نے قرارداد نمٹا دی ۔ایوا ن نے ضلع کیچ کے علاقے کولواہ اور ضلع آواران میں بجلی کی فوری فراہمی سے متعلق نیشنل پارٹی کے رکن جان محمد بلیدی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا قرارداد میں سفارش کی گئی کہ صوبائی حکومت مرکزی حکومت سے رجوع کرے کہ چونکہ کولواہ کا زرعی علاقہ ہوشاب سے شروع ہوتا ہے اور آواران سے جاکر ملتا ہے یہ علاقہ دو ضلعوں کے درمیان ایک زرعی علاقہ ہے اور زرعی طور پر اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے تیس ،چالیس سال قبل مکران کی زیادہ تر زرعی ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے لیکن بارشوں کی کمی کے باعث یہ علاقہ تباہ و برباد ہوگیا ہے اور جو لوگ ابھی تک ان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں وہ شدید معاشی بد حالی میں مبتلا ہیں اورلوگ مجبوراًمتبادل معاشی ضروریات نہ ہونے کے باعث دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں چونکہ اس علاقے میں زیر زمین پانی کی وافر مقدار موجود ہے لیکن بجلی نہ ہونے کے باعث لوگ اس قابل نہیں کہ وہ ٹیوب ویل لگائیں لہٰذا اس زرعی علاقے کی ضروریات کو فوری طور پر محسوس کرتے ہوئے ضلع کیچ کے علاقے کولواہ اور ضلع آواران میں بجلی فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے ۔

چوتھی قرار د اد پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی عبدالرحیم زیارتوال نے ویلج ایکسٹینشن (گاؤں توسیع ) پروگرام کے بارے میں پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ویلیج ایکسٹینشن پروگرام کے تحت جو کروڑوں روپے ہر سال Lapseہوجاتے ہیں اس کے معیار کو تبدیل کرکے ایکسٹینشن آٹھ چھوٹے اور پانچ بڑے پول پر ایک ٹرانسفارمر اور کم از کم چار گاؤں پر محیط معیار بنایا جائے ۔

عبدالرحیم زیارتوال نے اپنے قراراد کی موضوعیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوبے کا رقبہ بہت وسیع ہے آبادی پھیلی ہوئی ہے اور موجودہ فارمولے سے صوبے کے عوام بجلی کے حصول کے بارے میں مستفید نہیں ہورہے اور لوگ بجلی سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا اس فارمولے کو تبدیل کرکے اس طرح بنایا جائے کہ اس سے صوبے کے عوام مستفید ہوجائیں۔صوبائی و زیر شیر جان بلوچ نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں اس ضمن میں جو طریقہ کار رائج ہے اس سے لوگ مستفید نہیں ہورہے جبکہ صوبائی وزیر خزانہ سید احسان شاہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے موجودہ فارمولے کی بات کی تھی اور باقی صوبوں کی نسبت اب بھی ہمیں ریلیف دی گئی ہے تاہم ہمارے صوبے کا رقبہ اتنا وسیع ہے کہ اگر باقی تینوں صوبوں کے رقبے کو یکجا کیا جائے تو ہمارا صوبہ اس سے ذرا کم ہے انہوں نے کہا کہ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں کہ بلوچستان میں گاؤں توسیع پروگرام کے طریقہ کار کو اس بنیاد پر وضع کیا جائے جس سے ہمارے صوبے کے عوام مستفید ہو۔

اس قرار داد کو بھی اکثریت رائے سے منظور کرلیا گیا جبکہ ایوان نے خواتین اراکین اسمبلی فرح عظیم شاہ ،محترمہ آ منہ خانم اور محترمہ ثمینہ سعید کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا جس میں کہا گیا کہ شہر کے مختلف میں علاقوں میں تعینات ٹریفک پولیس کا عملہ گرمی و سردی کے موسم میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں لہٰذا موسم کی سختی سے بچاؤ کے پیش نظر ٹریفک پولیس کیلئے بھی بھی ملٹری پولیس کی طرز پر چیک پوسٹیں تعمیر کی جائیں