شوگر کریشنگ سیزن 2014-15ء کے اختتام کے ساتھ ہی چینی کے نرخوں میں اضافہ

بدھ 8 اپریل 2015 17:44

بہاولپور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔08 اپریل۔2015ء) شوگر کریشنگ سیزن 2014-15ء کے اختتام کے ساتھ ہی چینی کے نرخوں میں اضافہ ، شوگرملیں چینی کی پیداوارکے اعدادوشمار کو خفیہ اورٹیکس بچانے کیلئے چینی کی بوریوں پرسیریل نمبرز تبدیل کرکے سٹاک کاغلط اندراج کرنے لگی،ماہ صیام میں چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کاخدشہ پیداہوگیاہے ان خیالات کااظہار سابق صدر بہاول پورچیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری شیخ عباس رضانے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کیاانہوں نے کہاکہ شوگر کریشنگ سیزن 2014-15ء کے اختتام کے ساتھ ہی چینی کے نرخوں میں اضافہ شروع ہو گیا ہے‘ کریشنگ سیزن کے اختتام کے باوجود شوگر ملز کی جانب سے ابھی تک چینی کی مجموعی پیداوار کے اعداد و شمار جاری نہیں کئے جا سکے ہیں جبکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 10 لاکھ میٹرک ٹن اضافی پیداوار ظاہر کرتے ہوئے شوگر ملوں کو ایکسپورٹ کی اجازت کے ساتھ ساتھ سبسڈی سے بھی نواز دیا ہے۔

(جاری ہے)

صیام میں چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں ناقص زرعی پالیسیوں کی وجہ سے کاشت کار کپاس‘ چاول کے بعد گنے اور گندم کی فصلوں کے مقرر کردہ کم نرخوں کے ساتھ ساتھ مڈل مین اور شوگر ملز کی کی جانب سے لوٹ کھسوٹ پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ صوبہ بھر میں شوگر ملوں نے کریشنگ سیزن 2014-15ء کا اختتام کر دیا ہے۔

مالی سال 2013-14ء میں چینی کی پیداوار 55 لاکھ ٹن تھی جو اب کریشنگ سیزن 2014-15ء میں کم ہو کر 47 لاکھ ٹن رہ گئی ہے۔ شوگر کریشنگ سیزن کے دوران شوگر ملوں کی طرف سے ناجائز کٹوتیوں اور ایجنٹوں کے ذریعے کم نرخوں پر گنا خرید کر کے کاشت کاروں کی جیب پر مجموعی طور پر تقریباً 13 سے 14 ارب کی ڈکیتی لگائی ہے ،لیکن حکومتی عدم توجہی اور ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ شوگر سیزن کے اختتام سے قبل ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک میں 10 لاکھ میٹرک ٹن چینی کے وافر ذخائر ظاہر کرتے ہوئے شوگر ملز مالکان کو ایکسپورٹ کے ساتھ ساتھ تقریباً 8 روپے فی کلو تک سبسڈی کی منظوری دیدی ہے۔

اس کے باوجود کاشت کاروں سے سستے داموں گنا خرید کرنے والی شوگر ملز نے حالیہ چند دنوں میں فی سو کلو بوری چینی کے نرخ جو کریشنگ سیزن میں 48 سو روپے تھے بڑھا کر 52 ہزار 280 روپے کر دیئے ہیں جبکہ مارکیٹ میں پرچون فی کلو چینی 57 روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے چینی کی پیداوار کے حوالے سے تاحال حتمی اعداد و شمار ہی جاری نہیں کئے جا سکے ہیں۔

ملک میں چینی کی ماہانہ کھپت 3 لاکھ 90 ہزار میٹرک ٹن ہے جبکہ کریشنگ سیزن 2014-15ء کے دوران چینی کی پیداوار میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 8 لاکھ ٹن کمی کے باوجود شوگر ملز کو ایکسپورٹ اور چینی کے نرخوں میں اضافے کی اجازت محض شوگر مافیا کو نوازنے کے حربے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شوگر کریشنگ سیزن کے دوران کاشت کاروں نے شوگر ملز کی جانب سے کی جانے والی ناجائز کٹوتیوں اور گنے کی فصل کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات کے لحاظ سے کم نرخوں کے خلاف شدید احتجاج کے باوجود مرکزی‘ صوبائی حکومتوں اور کین کمیشن پنجاب کی جانب سے کاشت کاروں کے تحفظ کے حوالے کوئی راست اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

شوگر ملز مالکان کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی پیداوار کے اعداد و شمار چھپائے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ شوگر کریشنگ سیزن کے دوران شوگر ملز ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری محکمہ جات کے لئے نو زون ایریا ہوتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق شوگر ملز ٹیکس بچانے کے لئے چینی کی بوریوں پر سیریل نمبر تبدیل کرتی ہیں اور سٹاک کو بھی درست طور پر ظاہر نہیں کیا جاتا۔

کریشنگ سیزن میں مارکیٹ میں چینی کے کم نرخ ہونے کے باوجود شہریوں کو چینی سے بننے والی مصنوعات و مشروبات اور مٹھائیاں بدستور پرانے نرخوں پر فروخت ہوتی رہیں اور اب چینی کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو نہ روکا گیا تو ماہ صیام میں نرخوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔انہوں نے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب‘ وفاقی وزیر خزانہ‘ وزارت خوراک و زراعت سمیت ذمہ دار اداروں کو چینی کے نرخوں پر کنٹرول اور ملکی ضرورت کے لحاظ سے چینی کے سٹاک کے جائزہ کا مطالبہ کیا ہے۔