جو آٹھ دس کروڑ روپے ہیلتھ فسیٹیول کے نام پر خرچ کیے گیے اس میں اگر پچیس تیس ڈسپنسریاں کھول دی جاتی تو تھر میں صحت کے مسائل حل ہوجاتے،حلیم عادل شیخ

تھر کے نام پر فنڈ لے کر ہڑپ کرجانے والوں کو بھی عوامی سیاست کرنا ہوگی۔تھر میں قحط کا تیسرا سال ہے جس میں ابھی تک ایک ہزار کے قریب بچے غذائی قلت سے ہلاک ہوئے ،پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 11 اپریل 2015 21:44

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11 اپریل۔2015ء) مسلم لیگ سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ جو آٹھ دس کروڑ روپے ہیلتھ فسیٹیول کے نام پر خرچ کیے گیے اس میں اگر پچیس تیس ڈسپنسریاں کھول دی جاتی تو تھر میں صحت کے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ۔تھر کے نام پر فنڈ لے کر ہڑپ کرجانے والوں کو بھی عوامی سیاست کرنا ہوگی۔تھر میں قحط کا تیسرا سال ہے جس میں ابھی تک ایک ہزار کے قریب بچے غذائی قلت سے ہلاک ہوئے ۔

2014میں 665بچے ہلاک ہوئے اس سے قبل 250بچے جانوں سے چلے گئے تھر کی16 لاکھ کی آبادی میں حکومت سندھ کی تمام ایکٹی ویٹی صرف مٹھی سرکٹ ہاؤس تک محدود ہے جبکہ چھاچھرو،ٹاہلی ،اسلاکوٹ ننگر پارکر اورڈیپلو کے دور دراز گوٹھوں میں انہیں جانا چاہیے جہاں بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال رکھیں ہیں ۔

(جاری ہے)

آج کی تاریخ میں ننگر پارکرڈیپلو چھاچھروکے ہسپتالوں میں ملا کر تقریباً چالیس بچے زیرعلاج ہیں۔

ہیلتھ فیسٹیول کے نام پرحکومت سندھ بتائے کہ کس چیز کا جشن تھا اس عمل سے تھریوں کا مذاق اڑایا گیا، انہیں چاہیے کہ وہ تھر کے دور دراز گوٹھوں میں نیوٹریشن کے بیگز لیکر جائیں ادویات لیکر جائیں ،تھر فیسٹیول تھریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے حکومت اسے اپنے ناکامی تصور کرے ،ان خیالات کااظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ تھر کا مسئلہ بہت آسان ہے اگر وہاں کے منتخب نمائنداپنے اپنے حلقوں میں جاکر بیٹھے اور عوام کو پانی اور خوراک بہم پہنچائے تو اس کا حل آسانی سے نکل سکتا ہے ۔اس موقع پر مسلم لیگ کے رہنما نفیس حیدر،افشاں علی ،جاوید اعوان شیخ اقبال بھی موجود تھے ۔انہوں نے کہا کہ تھر کے متاثرہ علاقوں میں ایک بھی فور بائے فور ایمبولینس موجود نہیں ہے جو ایمبولینس میٹھی سے حیدرآباد آتی تھی وہ انہوں نے بند کردی کہ قرض بڑھ جانے پر پٹرول والوں نے پٹرول دینابندکردیا ۔

یونائیٹڈ نیشن کی این جی اوز کا کردار بھی اب ان تین سالوں میں نظر نہیں آیا،سندھ حکومت اس وقت کریمنل گورننس کا مظاہرہ کررہی ہے آج اس وقت سب سے بڑی اپوزیشن میڈیا ہے ،اعلان کیا گیا تھا کہ ساڑھے سات سو آراوپلانٹ لگائے جائینگے جن کے پیسے بھی کھربو ں روپے کے حساب سے دیئے جاچکے ہیں،بے نظیر دسترخوان کا اعلان بھی پورا نہیں کیا گیا۔تھر میں لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے وہ کربلا بن چکاہے جبکہ ٹی ایم ایز کروڑوں روپے کے جعلی بل بناکرپیش کررہی ہے ،بجائے اس کے تھر میں گھروں میں ان کے کنووں میں پانی پہنچایا جائے ۔

اس وقت متاثرہ علاقوں نہ پانی بھیجا جارہا ہے نہ ہی فوربائے فور اور موبائل میڈیکل ٹیمیں بھجوائی جارہی ہیں،انڈیا میں اگر ایک سال بارش نہ ہوتو اس کے دوسری طرف سبزہ ہے مگر یہاں کچھ بھی نہیں ہے ،تھری کے لائیوسٹاک ختم ہونے سے ان کو مالی مسائل کا سامنا درپیش ہوگیا،باہر نکلے ان کے پاس نہ تو پیسے تھے اور نہ ہی ڈسپنسریاں کھلی ہوئی تھی ۔ تھر تو دور کی بات ملیر میں پانچ ہسپتال ہیں جو کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائے گئے وہ بند پڑے ہیں گڑاپ ،دنبہ گوٹھ ،میمن گوٹھ اور دیگر میں کئی سو بیڈوں کے ہسپتال ہیں جو آٹھ دس سالوں سے انتظامیہ کی بے حسی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔

ان لوگوں نے ہیلتھ وفیسٹیول میں صحافی اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی بھی کی جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ PMLNبھی کوئی کردارادانہیں کیا وزیراعظم فوٹو سیشن کرواکر تھر سے چلے گئے NDMAاگر پنجاب میں سیلاب میں کردار ادا کرسکتی ہے تو پھر انہیں سندھ میں بھی کردار ادا کرنا چاہیے ۔حکومت سندھ آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے کیونکہ یہ آئین میں ہے کہ حکومت وقت عوام کو تعلیم ،صحت اور صاف پانی کی سہولیات فراہم کرے ۔

مگر افسوس آج بھی اس کراچی ٹھٹھہ جامشورواور ٹھٹھہ کے تین کروڑ لوگ گندا زہریلہ پانی پینے پر مجبور ہیں ، حمل ،منچھر جھیل تباہ ہوگئی اب کینجھر جھیل تباہ ہونے جارہی ہے ۔اس وقت کوہستان اور ٹھٹھہ کی حالت بھی اسی طرح کی ہے حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں کینسر ،نیگلیریا،ہیپاٹائٹس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کیڈیم ،سائینائٹ اور مرکری کا شامل ہونا ہے ۔

نیگلیریا پانی ناک کے زریعے وضو کے زریعے دماغ میں جاتاہے جو جان لیوا ہے صاف پانی کی فراہمی کے لیے 74کرورڑ کا ٹریٹمنٹ لگایاگیا جو اگلے دن ہی خراب ہوگیا ۔اس حکومت کو انسانی زندگی کی کوئی پروا نہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ تربت میں دہشت گردی سے ہلاک ہونے والوں پر افسوس ہے سندھ کے پانچ مزدور غریب اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر تربت میں روزگار کے حصول کے لیے گئے تھے جن میں سے پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جن کے لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہا ر کرتے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :