لاپتہ افراد کیس ،سپریم کورٹ کے علیم ناصر اور حافظ عبدالباسط کو رہا کرنے کے احکامات

ڈی جی ایف آئی اے اپنے دفتر میں خود عبدالباسط کو ان کے ماموں کے حوالے کریں اور حوالگی کی رسید عدالت میں پیش کی جائے، علیم ناصر کی تمام دستاویزات اور قیمتی پتھر ان کے حوالے کر کے طیارے کے ذریعے واپس بھیجا جائے، ملک بھر سے لاپتہ افراد کی فہرست عدالت میں پیش کی جائے، عمران منیر کو دو ہفتے تک پمز ہسپتال میں طبی امداد دی جائے اور انہیں پہرے میں رکھا جائے، عدالت عظمیٰ کا حکم،عمران منیر کو علاج معالجے کی سہولیات نہ دینے پر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے، ایجنسیاں کس قانون کے تحت لوگوں کو اٹھا رہی ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس ۔(تفصلی خبر)

منگل 21 اگست 2007 17:09

اسلام آباد (ٍٍاردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین21 اگست 2007) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھر سے لاپتہ افراد کیس میں جرمن نژاد علیم ناصر اور حافظ عبدالباسط کو رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ حافظ عبدالباسط کو ڈی جی ایف آئی اے اپنے دفتر سے خود ان کے ماموں کے حوالے کرکے حوالگی کی رسید عدالت میں پیش کرے۔ علاوہ ازیں عدالت نے علیم ناصر کی تمام سفری دستاویزات اور قیمتی پتھر ان کے حوالے کرنے اور اسے بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی واپس بھجوانے کا حکم دیا ہے۔

ملک بھر سے لاپتہ افراد کی فہرست عدالت میں پیش کی جائے۔ عمران منیر کو دو ہفتے پمز ہسپتال میں طبی امداد دی جائے اور دوران علاج آئی جی اسلام آباد اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران منیر کو کوئی دوسری حساس ایجنسیاں زبردستی اٹھا کر نہ لے جا سکیں۔

(جاری ہے)

ہسپتال میں اسے پہرے میں رکھا جائے۔ 4 ستمبر کو عمران منیر کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ اس سے مسعود جنجوعہ کی حساس ایجنسی کے ہاتھوں نظربندی کے حوالے سے تصدیق کی جا سکے۔

نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے ڈائریکٹر جنرل جاوید اقبال چیمہ عدالت میں ان افراد کے نام اور تحریری رپورٹ پیش کریں جو اسے عمران منیر کی منگلا سے اسلام آباد روانگی کے حوالے سے غلط اطلاعات دیتے رہے ہیں اور جنہوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بھی غلط معلومات دی ہیں جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران منیر کے بیان کے بعد ڈی جی نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل ہاٹ واٹر میں ہیں عمران منیر کو علاج معالجے کی سہولیات نہ دے کر عدالت عظمیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے حساس ایجنسیاں کس قانون کے تحت لوگوں کو اٹھا رہی ہیں جبکہ جسٹس راجہ فیاض احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران منیر کے حوالے سے وزارت داخلہ کے سیکرٹری نے غلط بیانی کی ہے اور جس نے بھی غلط بیانی کی ہے اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ادا کئے ہیں اس دوران شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ، اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم، ڈپٹی اٹارنی جنرل ناہیدہ محبوب الٰہی، اکرام چوہدری ایڈووکیٹ، عبدالمجیب پیرزادہ ایڈووکیٹ، عاصمہ جیلانی ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بٹر، جسٹس ناصر الملک اور جسٹس راجہ فیاض احمد پر مشتمل 5 رکنی بنچ نے کی۔

چیف جسٹس کی جانب سے حافظ عبدالباسط کو منگل کو عدالت کے سامنے پیش کئے جانے کی مہلت کے خاتمے پر اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے عدالت کو بتایا کہ عبدالباسط کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس ہے اور انہیں منگل کی رات تک اسلام آباد لایا جا سکتا ہے۔ اس پر فاضل عدالت نے حکم دیا کہ حافظ عبدالباسط کو ہر صورت میں آٹھ بجے تک اسلام آباد لایا جائے اور ڈی جی ایف آہی اے طارق پرویز اپنے دفتر میں حافظ عبدالباسط کے وکیل کے سامنے ماموں حافظ عبدالناصر کے حوالے کریں۔

حافظ عبدالباسط کے حوالے سے فیصل آباد پولیس کا مؤقف یہ تھا کہ انہوں نے عبدالباسط کو پنڈی بھٹیاں موٹروے انٹرچینج پر ایم آئی کے کیپٹن عامر نامی شخص کے حوالے کیا تھا جبکہ فوجی ذرائع نے اس نام کے کسی بھی کیپٹن کی موجودگی سے معذوری ظاہر کی تھی۔ عدالت نے علیم ناصر کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا اسے بھی گزشتہ روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسے لاہور ایئرپورٹ سے اغواء کیا گیا اور اسی سے تمام سفری دستاویزات اور قیمتی پتھر بھی لے لئے گئے۔ اس کو ہراساں کیا گیا اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ علیم ناصر آزاد ہے وہ جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے۔ تاہم اس کی ٹکٹ کا عرصہ ختم ہونے پر اسے ٹکٹ بھی فراہم کر دیا جائے گا۔ اس پر عدالت نے انہیں حکم دیا کہ علیم ناصر کی تمام سفری دستاویزات اور قیمتی پتھر بھی اس کو واپس کر دیئے جاہیں اور انہیں جرمنی واپس بھجوا دیا جائے۔

ڈاکٹر عمران منیر کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے عدالت میں بیان دے کر سکتہ طاری کر دیا انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسے 20 اگست کو ہی صبح 3 بجے منگلا سے نکال لیا کیا تھا اور 11 بجے راولپنڈی پہنچا دیا گیا تھا جبکہ اس سے قبل ڈپٹی اٹارنی جنرل ناہیدہ محبوب الٰہی اور ڈی جی نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل جاوید اقبال چیمہ عدالت کو اطلاع فراہم کرتے رہے کہ عمران منیر کو لایا جا رہا ہے اور شام ساڑھے چھ بجے تک وہ اسلام آباد پہنچ جائے گا جس پر عدالت نے اسے اڈیالہ جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر رکھنے اور عدالت میں گزشتہ روز پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عمران منیر نے عدالت کو بتایا کہ اسے فیلڈ انوسٹی گیشن یونٹ (ایف آئی یو) میں رکھا گیا تھا۔ عدالت نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ عدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی ہے اور دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدالت نے ڈی جی این سی ایم سی جاوید اقبال چیمہ کو حکم دیا کہ جس نے بھی غلط معلومات عدالت کو فراہم کی ہیں ان کے بارے میں تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

عدالت نے بعد ازاں عمران منیر کو پمز ہسپتال میں دو ہفتے کے لئے داحل کرانے کا حکم دیا اور آئی جی اسلام آباد کو کہا کہ یہ بندہ اب آپ کی تحویل میں اور ذمہ داری پر ہے اس کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور مذکورہ شخص سے اس کے اہلخانہ اور وکلاء کو ملنے کی اجازت ہے۔ بعدازاں ڈپٹی اٹارنی جنرل ناہیدہ محبوب الٰہی نے بقیہ لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولا بخش نورانی عمران علوی، فہد بگٹی رہا ہو چکے ہیں عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ آپ کو 15 روز دیئے جا رہے ہیں تمام مقدمات کے حوالے سے تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا جائے مزید سماعت 4 ستمبر کو ہو گی۔