مقبوضہ کشمیر میں جعلی ادویات کی بھرمار،لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں

بھارتی کمپنیاں نقلی ادویات خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر کیلئے تیار کرتی ہیں، ڈاکٹرز ایسوسی ایشن 2012میں 500بچوں کی اموات نقلی ادویات کی وجہ سے ہی ہوئی تھیں،ڈاکٹر نثار الحسن

جمعرات 23 اپریل 2015 17:26

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 23اپریل۔2015ء) مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹروں کی تنظیم’ڈاکٹرز ایسو سی ایشن آف کشمیر‘ نے مقبوضہ علاقے کو جعلی ادویات کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف میڈیکل سٹورز بلکہ ہسپتالوں میں بھی نقلی ادویات کی بھرمار ہے۔ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر نثار الحسن نے سرینگر میں جاری بیان میں کہا کہ نقلی ادویات کے کاروبار کا علم بھارتی حکومت ، کٹھ پتلی انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیوں کو بھی ہے جبکہ نقلی ادویات مافیاکی تاریں اوویہ ساز کمپنیوں سے بھی جڑی ہوئی ہے جو خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کیلئے ہی یہ ادویات تیار کرتی ہیں۔

ڈاکٹر نثار الحسن کا کہنا ہے کہ بھارت کی 40فیصدکمپنیاں نقلی ادویات تیار کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرس ایسو سی ایشن نے ہی سال2013میں مقبوضہ وادی میں بد نام زمانہ جعلی ادویات کاسکینڈل سامنے لایا تھا جس کے باوجود اس وبا کو روکنے کیلئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ دستاویزی ثبوت ہونے کے با وجود بھی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو بچایا گیا اور اس طرح یہ کاروبار بھی بڑھتا گیا۔

ڈاکٹر نثار نے کہا کہ معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر ترہن نے بھی کچھ برس قبل یہ کہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ نقلی ادویات کشمیر میں ہی فروخت کی جاتی ہیں ۔ڈاکٹر نثار الحسن نے کہا کہ وادی میں استعما ل کی جانے والی ادویات میں سے 50فیصد غیر معیاری ہوتی ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو داؤپر لگایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2012میں بچوں کے اسپتال جی بی پنت میں 500ننھے بچے موت کی آغوش میں چلے گئے تھے اور ڈاکٹروں پر غفلت شعاری کا الزام عائد کیا گیا جبکہ اصل میں بچوں کی اموات نقلی ادویات کی وجہ سے ہی ہوئی تھیں۔

متعلقہ عنوان :