یہ یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کی انجام دہی میں اخلاقیات اور ایمان داری کی انتہائی سطحوں کا خیال رکھیں، ارشد سعید حسین

ہمارے رویوں کا اطلاق براہ راست مریضوں کی زندگی پر ہوتا ہے جس کے ساتھ ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے، فارماسیوٹیکلز اور طبی خدمات کے لئے اخلاقیات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، چیئرمین فارما بیورو

ہفتہ 25 اپریل 2015 22:38

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 25اپریل۔2015ء) فارما بیورو کے چیئرمین ارشد سعید حسین نے کہا ہے کہ ’’اس بات کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کی انجام دہی میں اخلاقیات اور ایمان داری کی انتہائی سطحوں کا خیال رکھیں، کیوں کہ ہمارے رویوں کا اطلاق براہ راست مریضوں کی زندگی پر ہوتا ہے جس کے ساتھ ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے اور فارماسیوٹیکلز اور طبی خدمات کے لئے اخلاقیات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

‘‘ یہ بات انہوں نے یہاں ’اخلاقیات اور مستقبل میں طبی خدمات‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔کانفرنس کا اہتمام پاکستان میں ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ریسرچ پر مبنی ایک نمائندہ تنظیم فارما بیورو نے کیا تھاجس کا مقصد ایمان داری ، اخلاقیات اور مستقبل میں فارما صنعت کا کردار اور صنعت کے ڈاکٹروں سے تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔

(جاری ہے)

سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ ہم پریہ مجموعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم پاکستان میں مریضوں اور ڈاکٹروں کو درست معلومات، درست تشخیص اور درست تھراپیز اور علاج کے بارے میں معلومات سے آگاہ کریں اور با خبر رکھیں۔ انہوں نے کہاکہ شعبہ صحت کے قواعد کے حوالے سے کابینہ کی قائمہ کمیٹی کا رکن ہونے کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ محدود دائرہ کار کی حامل صرف ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی بجائے ایک جامع ہیلتھ کیئر اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (HCDRA)ہونی چاہیے ۔

جعلی ادویات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب ہمیں غیر معیاری ادویات کی وجہ سے کچھ بڑے سانحات سے گزرنا پڑا جس میں ایک بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ چاہے وہ PIC ، لاہور میں مصیبت کا سامنا کرنے والے دل کے مریض ہوں یا کھانسی کا شربت جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی، ایسے واقعات ہمارے لئے ایک حقیقی چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں جو صنعت میں عدم مطابقت اوراخلاقیات پر عدم توجہ کا براہ راست نتیجہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اور نجی شعبے کو مل کر یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مریضوں کے مفاد کے لئے تمام اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کی جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مریض کے مفاد کو ہر صورت مقدم رکھا جائے۔موقع کی مناسبت سے اس سیمینار کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ جعلی ادویات کی ایک وسیع پیمانے پر دستیابی، غلط تشخیص کے بڑھتے ہوئے واقعات، جعلی ڈاکٹرز، GMP سے عدم مطابقت رکھنے والے طریقہ جات، نے ماضی قریب میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع کی ہیں۔

ہارٹ فائل کی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ’’ریگولیٹری اداروں کے وسائل کی کمی اور کمزور احتسابی ڈھانچے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ فارماسیوٹیکل شعبے کو چیلنجز درپیش ہیں۔معیاری ادویات تک رسائی کے ہدف کے حصول کی خاطر ان خود بخود پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو ایک ترجیحی انداز میں دور کرنے کی ضرورت ہے؛ قطع نظر اس بات کے کہ ہمیں بھی ایسے موثر اقدامات کی ضرورت ہے جو پوری فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں اخلاقی رویئے کو ایک متعدی مرض کی طرح پھیلا سکتے ہوں۔

متعلقین میں آگہی پیدا کرنے کے لئے لازم و ملزوم کوشش کے ساتھ ادویات کے ایک بڑی سطح پر سیریلائزیشن ایسے موثر حل پیش کر سکتی ہے۔ میں صنعت سے پرزور اصرار کروں گی کہ وہ ایسے حل کے لئے یک جا ہوجائیں، جسے سول سوسائٹی اور میڈیا کے ساتھ مل کر صحیح معنوں میں تبدیلی کے ایک عنصر میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’نجی شعبے اور ریگولیٹر کے درمیان تعلقات کے لئے ایمان داری ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہمیں لازمی طور پر اس اصول کو مضبوطی کے عمل کے ایک ایسے طریقہ کار کے طور پر اپنانا ہے جس کا مقصد فارماسیوٹیکل کے شعبے کو ، ادویات تک رسائی کے تناظر اور تجارتی نقطہ نظر دونوں کے حوالے سے،بہتر نتائج دینا ہے۔‘‘نووو نارڈسک ، ترکی سے ، آئسے بورکا اکاریر نے اخلاقیات اور فارما صنعت کے مستقبل کے کردار کے بارے میں ایک پریزنٹیشن دی جس کے بعد سوالات و جوابات کا ایک بڑا دلچسپ سیشن منعقد ہوا جس میں سامعین نے گرمجوشی سے شرکت کی۔

ڈاکٹر ٹیپو سلطان، ڈاکٹر شاہین شیخ، ڈاکٹر احسن قوی، اور ڈاکٹر عبدالباری جیسے حفظان صحت کے معروف پیشہ ور ماہرین اور صنعت کے قائدین نے بھی کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔تمام شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ صحت کے تصور میں قوانین و ضوابط سے کہیں زیادہ چیزیں، متعلقین کے باہمی تعاون کے لئے نئی حکمت عملیوں کا قیام اور بھروسے اور مشترکہ اقدار پر تعمیر کردہ نئے تعلقات شامل ہو تے ہیں۔انہوں نے اس بات کو بھی دہرایا کہ کاروبار کی حکمت عملیوں کا مستقبل بنیادی طور پر اقدارپر استوار ہونا چاہیئے۔