تخلیقی صلاحیت اوردماغی خلل، شعرا اور ادیب جنہوں نے خودکشی کی

Faizan Hashmi فیضان ہاشمی پیر 27 اپریل 2015 16:40

تخلیقی صلاحیت اوردماغی خلل، شعرا  اور ادیب جنہوں نے خودکشی کی

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ تخلیقی صلاحیت والے لوگوں میں دماغی خلل کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ جدید تحقیق اس عمومی خیال کی تائید کرتی ہے کہ ذہنی بیماری اور تخلیقی صلاحیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
آئیووا رائٹرز ورکشاپ 2005 میں کی جانے والی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مصنفین اور اُن کے قریبی رشتے داروں کا اُن لوگوں سے موازنہ کیا گیا جو اُن جیسا ہی تعلیمی پس منظر اور آئی کیو لیول رکھتے تھے تو معلوم ہو ا کہ مصنفین کی ذہنی کیفیت زیادہ خراب ہوتی ہے۔

ڈونالڈ ڈبیلو گڈوین، ایم ڈی، الکوحل اور مصنفین(الکوحل اینڈ دی رائٹرز) میں لکھتا ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے 11 میں سے چار(یوجین و نیل، سنکلیئر لوئیس، ارنسٹ ہیمنگوے اور ولیم فولکنر) یقینی طورر پر شرابی تھے جبکہ پانچواں جون سٹینبیک غالباً شرابی تھا۔

(جاری ہے)


کارولنسکا انسٹی ٹیوٹ، جو ایک میڈیکل یونیورسٹی ہے، کے محققین نے12 لاکھ ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر ایک تحقیق کی جو شیزوایفکٹیو ڈس آرڈر، ڈپریشن، کثرت شراب نوشی اور خودکشی کے رحجان رکھتے تھے۔

اس تحقیق سے پتہ چلا کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد ، خصوصاً مصنفین، میں عام افراد کے مقابلے میں خودکشی کا رحجان دوگنا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کی کچھ قیمت ہو جو مصنفین کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ ورجینیا وولف، ارنسٹ ہیمنگوے(انگریزی)، صادق ہدایت، تقی رفعت(فارسی)، علامہ آئی آئی قاضی (سندھی) اور میشیوا یوکیو(جاپانی)اُن ہزاروں مصنفین میں سے چند ہیں جنہوں نے خود کشی کی۔

ایک عرب خاتون جومانا حداد نے ایک فہرست شائع کی ہے جس میں 150 شعرا کا ذکر ہیں جنہوں نے خودکشی کی۔
اگرچہ یہ تحریر بہت افسردہ کر دینے والی ہے مگر شاعروں کے خودکشی کے رحجان کو شاعری میں رکاؤٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔
لوگ خود کو قتل کیوں کرتے ہیں؟ ماہرین اس کی وجہ ڈپریشن اور ناامیدی بتاتے ہیں۔ڈپریشن کی وجوہات میں جائے بغیر ہم اُن چند اردو مصنفین کو دیکھتے ہیں جنہوں نے خودکشی کی۔



شمش آغا
شمش آغا ایک باصلاحیت مختصر کہانی نویس اور ناول نگار تھے۔ 1922 میں پیداہوئے۔ بہت ہی حساس تھے۔ والدین میں علیحدگی ہوئی تو ماں اور بہن بھائیوں کی جدائی نے اُن کی بے چینی میں اضافہ کر دیا۔3 دسمبر 1945 کو غائب ہوئے اور کبھی گھر نہیں لوٹے۔ ایک قریبی دوست اور رشتے وزیر آغا کویقین تھا کہ شمش نے خودکشی کر لی ہے۔ وزیر نے پہلے بھی ایک موقعے پر شمش کی جان بچائی تھی، جب شمش نے بہت زیادہ ٹرینکولائزر لے لیں۔

شمش نے غائب ہونے سے پہلے 9 مختصر کہانیاں اور ایک نامکمل ناول لکھا۔ غائب ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے نامکمل ناول کا مسودہ مولانا صلاح الدین احمد کے حوالے کر دیا تھا۔

شکیب جلالی
شکیب جلالی تقسیم ہند کے بعد کے شعرا میں سب سے ممتاز ہیں، اگر چہ اُن کے ہم عصرانہیں وہ مقام نہیں دیتے جو اُن کا حق ہے۔ سید حسن رضوی(شکیب جلالی)، علی گڑھ کے قریبی گاؤں جلال میں 1 اکتوبر 1934 کو پیدا ہوئے۔

شکیب کے والد کی ذہنی بیماری کے باعث اُن کی والدہ نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ماں کی موت کا المناک منظردیکھا اور ساری زندگی اذیت میں مبتلا رہے۔ یہ دکھ ساری زندگی اُن کا پیچھا کرتا رہا آخر کار 12 نومبر 1966 کو انہوں نے بھی سرگودھا کے پاس ایک ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ 1972 میں اُن کا مجموعہ کلام روشنی آئی روشنی کے نام سے شائع ہوا ۔

سنگ میل نے بھی 2004 میں شکیب جلالی کی تمام شاعری کلیات شکیب کے نام سے شائع کی۔(شکیب جلالی کی شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سارا شگفتہ
سارا شگفتہ 31 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ اُن کی ذات ایک معمہ تھی۔ غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میٹرک بھی پاس نہ کر سکیں۔


ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں(ان کے دو شوہر شاعر تھے) نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔انہیں دماغی امراض کے ہسپتال بھیجا گیا جہاں انہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ 4 جون 1984 کو انہوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔(سارا شگفتہ کی شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

آنس معین
آنس معین 29 نومبر 1960 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔

اُن کا تعلق بہت مذہبی خاندان سے تھا۔اُن کا رحجان صوفی ازم کی طرف زیادہ تھا۔ کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔اُن کی خودکشی سےمتعلق کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُن کے ایک صوفی دوست نے کہا، موت کے بعد زندگی اتنی خوبصورت ہے کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو دنیا کی آدھی آبادی خودکشی کر لے۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی کولیگ سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر خاندان والوں نے اس رشتے سے منع کر دیا۔

تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس بنک میں وہ کام کرتے تھے وہاں ایک فراڈ ہوا اور انچارج کے طور پر وہ خود کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ان تمام حالات نے انہیں خودکشی پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے 5 فروری 1985 کو ملتان میں ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی۔

ثروت حسین
اردو اور پنجابی شاعر ثروت حسین 9 نومبر 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔دوران تعلیم انہیں ایک ساتھی طالبہ سے محبت ہوگئی(جو بعد میں بہت بڑی شاعرہ ہوئیں)۔

بےروزگار ثروت نے نوکری کے لیے جدوجہد کی تو انہیں کراچی کے ایک کالج میں اردو کے لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ساتھی بطور شاعرہ شہرت پاتی گئی اور اُس نے ثروت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ بعد میں ثروت کا تبادلہ لاڑکانہ کے قریبی قصبے میں ہوگیا اور وہ اپنے پیاروں سے دور ہو گیا ۔1988 میں اس کا تبادلہ حیدر آباد ہوا مگر تب تک وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر علاج کرا رہا تھا۔

1993 میں ثروت نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کی کوشش کی مگر بچا لیا گیا۔ اس حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں چلی گئی اور وہ لنگڑا ہو گیا ۔9 ستمبر 1996 کو اس نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔(ثروت حسین کی شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ان تمام واقعات میں شعرا نے ٹرین کو ہی خودکشی کا ذریعہ بنایا۔

ہو سکتا ہے کہ ٹرین کے سفر میں رومانوی کشش ہو، پٹری اور ٹرین کو لمبے سفر ، آخری سفر کے استعارے کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔
شعرا کے بعد اب تھوڑا ذکر ہو جائے اُن مصنفین کا جن کی موت پر پراسراریت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی موت سے متعلق بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔

مصطفےٰ زیدی
سید مصظفےٰ حسین زیدی، مصطفےٰ زیدی اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھے۔

وہ 10 اکتوبر 1930 کو الہٰ باد میں پیدا ہوئے۔مصطفےٰ زیدی کا انتقال 12 اکتوبر 1970 کو پراسرار حالات میں ہوا۔ کچھ کا خیال ہے کہ انہیں قتل کیا گیا جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں انہوں نے خودکشی کی۔

قمر عباس ندیم
1944 میں پیدا ہونے والے قمر عباس ندیم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور مختصر کہانیاں لکھتے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی بلکہ روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوئے جبکہ ایک قریبی دوست نے بتایا ، ندیم میں خودکشی کا رحجان تھا۔

قمر عباس ندیم نے 29 مئی 1981 کو ٹرینکولائزر لی اور اپنی کار بجلی کے کھمبے سے ٹکرا دی۔ مرنے سے پہلے سکون آور ادویات کا استعمال غالبا اس لیے کیا کہ موت کی حقیقت جان سکیں۔ اُن کی موت کی وجہ زیادہ تر ایکسیڈنٹ ہی بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹرصفیہ عباد نے اپنی کتاب رگ رُت، خواہش مرگ اور تنہا پھول میں اردو کے ایسے مصنفین اور شعرا کا ذکر کیا ہے جنہوں نے خودکشی کی۔


اردو کے علاوہ دوسری زبانوں ،کے ایسے شاعر جنہوں نے خود کشی کی، کے حالات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں ،
اردو کے علاوہ دوسری زبانوں ،کے ایسے مصنف جنہوں نے خود کشی کی، کے حالات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں