داعشی خلیفہ صاحب فراش، طبی عملے میں خاتون بھی شامل!

خلیفہ ابو بکر البغدادی عراقی شہر موصل میں اپنی ایک ’محفوظ‘ پناہ گاہ میں ہیں تاہم تنظیمی معاملات دیکھنے سے قاصر۔ برطانوی اخبار کا دعویٰ

اتوار 3 مئی 2015 17:37

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 3مئی۔2015ء)برطانوی اخبار ”گارجین“ نے دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق وشام ”داعش“ کے خود ساختہ خلیفہ ابو بکرالبغدادی اتحادی افواج کے فضائی حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد مسلسل ’صاحب فراش‘ ہیں اور تنظیم کے معاملات دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ان کے علاج پر مامور طبی عملے میں ایک خاتون ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق خلیفہ ابو بکر البغدادی اس وقت عراق کے شہر موصل میں اپنی ایک ’محفوظ‘ پناہ گاہ میں ہیں۔ جہاں طبی عملہ ہمہ وقت ان کی دیکھ بحال میں مصروف ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارچ میں ایک فضائی حملے میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ بمباری میں ان کی ریڑھ کی ہڈی بری طرح متاثرہوئی ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت ان کے علاج پر مامور طبی ماہرین میں لیزر کے ذریعے علاج کی ماہر ایک خاتون بھی شامل ہیں۔

گارجین نے ’داعش‘ کے مقرب تین مصدقہ ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ زخمی ہونے کے بعد بغدادی تنظیمی سرگرمیوں سے قاصر ہیں۔ ان کی جگہ ابو علاء العفرنامی ایک دوسرے جنگجو تنظیمی معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔ العفری کو پچھلے سال دسمبر میں البغدادی کے نائب ابو مسلم الترکمانی کے فضائی حملے میں ہلاک ہونے کے بعد تنظیم کا نائب سربراہ مقرر کیا گارجین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعشی خلیفہ کے علاج پرمامور عملے میں دو مرد اور ایک خاتون ڈاکٹر ہیں۔

خاتون ڈاکٹر”ریڈیالوجی“ کی ماہر ہیں اور زیادہ تر البغدادی کی دیکھ بحال وہی کررہی ہیں۔ یہ خاتون موصل کے اسپتال میں بھی کام کرتی ہیں۔ البغدادی کے علاج میں مصروف مرد ڈاکٹر نظریاتی طورپر داعش کے حامی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔برطانوی اخبارنے ایک یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ البغدادی کی طبی حالت کو زیادہ سے زیادہ صیغہ راز میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

داعش کے بیشتر کارکنوں کو یہ بتایا گیاہے کہ وہ معمولی زخمی ہیں اور ان کا علاج جاری ہے تاہم ان سے ملاقات کی اجازت شاذ و نادر ہی کسی کو دی جاتی ہے۔اس حد درجہ رازی داری کیباوجود داعشی جنگجو اپنے ”امیر“ کے حوالے سے سخت پریشان اورغصے میں بھی ہیں۔ وہ اتحادیوں کے حملے کا مغرب سے انتقام لینے کے لیے بھی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔خلیفہ ابو بکرالبغدادی کا نایب ابوعلاء العفری ایک جدید تعلیم یافتہ شخص ہیں جو عراق میں طبیعات کے استاد رہ چکے ہیں۔

انہوں نے داعش کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد اس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ تنظیم کے سابق مقتول کمانڈر ابو عمر البغدادی نے العفری کو ’داعش‘ کا متوقع خلیفہ قرار دیا تھا۔ خود ابو عمرالبغدادی اپریل 2010ء میں عراق کے شہرتکریت میں ایک امریکی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔عراقی حکومت کے داعش کے امور سے متعلق مشیر ھشام الھاشمی کا کہنا ہے کہ ”العفری داعش میں ایک قابل اعتماد کمانڈر سمجھے جاتے ہیں۔

ان کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں کے سبھی معترف ہیں۔ خلیفہ البغدادی کی وفات کی صورت میں تنظیم کے پاس ابو علاء العفری سے بہتر لیڈر اور کوئی نہیں ہوسکتا جو خلیفہ کے منصب پر فائز ہو۔یاد رہے کہ برطانوی اخبار ’گارجین‘ نے چند ہفتے قبل اپنی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ البغدادی 18 مارچ کو موصل میں نینویٰ کے قریب البعاج کے مقام پر ایک فضائی حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔

مغربی سفارتی ذریعے کا کہنا ہے کہ اتحادی طیاروں نے شام اور عراق کی سرحد پر تین مشتبہ کاروں کو ام الروس اور الکرعان کے درمیان نشانہ بنایا تھا۔ تب امریکیوں کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ اس قافلے میں البغدادی بھی شامل ہے۔امریکی وزارت دفاع کے ترجمان اسٹیفن وارن کا کہنا تھا کہ ”ہمیں یہ یقین نہیں تھا کہ فضائی حملے سے نشانہ بنائے گئے تین کاروں کے مشکوک قافلے میں البغدادی بھی سوار تھا“ تاہم بعد ازاں اس کی تصدیق ہوگئی تھی کہ نشانہ بننے والی کاروں میں سے ایک میں البغدادی بھی سوار تھے۔ امریکی ابھی تک البغدادی کے قتل یا زخمی ہونے کے حوالے سے بھی گوموگو کا شکاری ہیں اور کوئی مصدقہ رائے دینے سے گریزاں ہیں۔