پرویز رشیدمدارس کیخلاف ہرزہ سرائی پر قوم سے معافی مانگیں‘ ان کے بیان سے دینی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے:سینیٹر پروفیسر ساجد میر

جمعرات 7 مئی 2015 16:22

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 مئی۔2015ء) مرکز ی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کی طرف سے کراچی میں ادبی کانفرنس کے دوران دینی مدارس کے خلاف منفی گفتگو کی شدید الفاظ مذمت کی ہے۔پرویز رشید نے دینی مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں قراردے کر خود سب سے بڑے جاہل ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

پرویز رشید سے ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی توقع نہیں تھی۔اپنے ایک مذمتی بیان میں پروفیسر ساجد میر نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر ادارے میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اور اداروں میں ہر طرح کے خیالات اورنظریات کے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی ایک فرد کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی بنیاد پر تمام مدراس کو جاہل قراردینا سراسر ناانصافی ہے۔

(جاری ہے)

پرویز رشید کو چاہیے کہ وہ دینی مدارس کے خلاف اغیار کی طرف سے کیے جانے والے بے بنیاد پراپیگنڈہ مہم کا حصہ نہ بنیں۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ پرویز رشیددینی مدارس کے خلاف منفی گفتگو کرکے مسلم لیگ ن اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ دینی طبقے میں پہلے ہی مدارس، مساجد کے بارے میں حکومتی پالیسیوں پر شدیدتحفظات ہیں۔ملک میں ایسی قوتیں متحرک ہیں کہ جو چاہتی ہیں کہ مسلم لیگ ن کے مذہبی ووٹ بنک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔

پرویز رشید نے بالواسطہ ان قوتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ صولت مرزا کس دارالعلوم سے فارغ ہے اورگلو بٹ یا فیصل موٹا کس دینی مدرسے کا سند یافتہ ہے۔؟ کیا ملک میں پکڑے جانے والے مختلف دہشت گردوں کا تعلق بڑی بڑی یونیورسٹوں سے نہیں ہے۔ کیا اس بنیاد پر ہم انہیں بھی جاہل قراردے دیں۔پرویز رشید کی گفتگو عقلی، منطقی لحاظ کے علاوہ حقائق کے بھی بالکل برعکس ہے۔

پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ وہ پرویز رشید کی اس گفتگو کے متعلق وزیر اعظم نوازشریف سے بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسلام کی روشنی پھیلانے والے ان مدارس نے دین کے علم کو بلند رکھنے کیلئے لازوال قربانیاں دے کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ہے۔ مدارس پر دہشت گردی کے الزامات لگانے والے اسلام دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔

دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺتک پہنچتا ہے۔

آج پاکستان میں25 لاکھ کے قریب دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبہ مفت تعلیم، طعام ،رہائش، کی سہولتوں سے فیض یاب ہیں۔ دینی مدارس دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے جس کا حکومت پر کوئی بوجھ نہیں ہے۔حکومت ان میں شوق سے اصلاحات کرے مگر ہم اصلاحات کی آڑ میں مدراس کی توہین اور انکے خلاف گالی برداشت نہیں کرسکتے۔پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد طلبہ میں کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے فروغ کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے کا مفید شہری بھی بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن وحدیث کی خدمت میں مدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے ، برصغیر میں قرآن وحدیث کی نشرواشاعت میں مدارس اسلامیہ ہی بنیادی کردار ہے اور یہ وہ شرف ہے جو کسی اور ادارے کو نصیب نہیں ہوا، اگر یہ کہا جائے کہ برصغیر میں مدارس اسلامیہ کے وجود کے بغیر علوم قرآن وحدیث کا فروغ ناممکن تھا تو بالکل مبالغہ نہ ہوگا۔

ان کاکہنا تھا کہ مدارس کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنا فیض پہنچانے میں کسی خاص طبقہ یا کسی خاص جماعت کو دوسرے طبقہ یا جماعت پر فوقیت نہیں دی بلکہ اس نے اپنے دروازے امیر اورغریب سب کے لیے یکساں طور پر کھلے رکھے ہیں۔ غریبوں میں تعلیم کو عام کرنے میں سب سے بڑا کردار مدارس ہی کا ہے ، اگر سروے کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آج اسکولوں کی بہ نسبت مدارس میں غریب طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔پروفیسر ساجد میر نے پرویز رشید سے مطالبہ کیا کہ وہ مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی پر قوم سے معافی مانگیں۔ کیونکہ ان کے بیان نے دینی مدارس اور دینی طبقے سے جڑے ہوئے لاکھوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔