نیگلیریا کے خطرے سے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں،محکمہ صحت سندھ کا واٹربورڈ کو خط

جمعہ 8 مئی 2015 17:01

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 08 مئی۔2015ء) سندھ کے محکمہ صحت نے صوبے بھر میں تعینات اپنے افسران، صوبائی محکمہ بلدیات اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی)کے عہدے داروں کو خطوط ارسال کیے ہیں۔ ان خطوط میں کہا گیا ہے کہ وہ نیگلیریا کے خطرے سے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔ واضح رہے کہ یہ خطرناک وائرس برین ایٹنگ امیباکے نام سے معروف ہے۔

گزشتہ ماہ کراچی میں گلستان جوہر میں مقیم ایک 18 برس کی نوجوان لڑکی ایک نجی ہسپتال میں انتقال کرگئی تھی، جس کے بارے میں بعد جاکر میں تصدیق ہوئی کہ وہ برین ایٹنگ امیبا سے متاثر تھی۔یہ اس ہلاکت خیز بیماری کا اس سال کا پہلا کیس تھا، جس کے باعث گزشتہ سال سندھ میں 14 افراد کی اموات ہوئی تھیں، ان میں سے کراچی کے شہریوں کی تعداد 12 تھی۔

(جاری ہے)

یہ واقعہ متعلقہ حکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جنہوں نے موسم گرما میں اس بیماری سے مقابلے کے لیے قبل از وقت کوششوں کے طور پر کئی خطوط ارسال کیے ہیں۔

گرم موسمی حالات اس جرثومے کے لیے سازگار سمجھے جاتے ہیں، جو گرم پانی میں پروان چڑھتا ہے اور پانی کے ساتھ ناک کے ذریعہ دماغ تک پہنچ کر انسان پر حملہ کرتا ہے۔کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ہیلتھ سروسز کے سینئر ڈائریکٹر اور صوبے بھر کے ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹروں کو ارسال کیے گئے خطوط میں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ نیگلیریا فالیری جسے برین ایٹنگ امیبا کہا جاتا ہے، سے لازما آگاہ رہیں۔

یہ جرثومہ میٹھے پانی کی ایسی جھیلوں، دریاں، تالابوں، سوئمنگ پولز میں پایا جاتا ہے، جن میں کلورین کی معمولی مقدار شامل کی گئی ہو، یا پھر کلورین کا استعمال بالکل بھی نہیں کیا گیا ہو۔ان سے کہا گیا ہے کہ وہ فی الفور میڈیکل اور پیرامیڈیکل عملے اور عوام کو آگاہ کرنے سمیت ضروری اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائر سے نمونے حاصل کرکے ان میں کلورین کی مقدار کی جانچ کروائیں، تاکہ اس کو انسانی استعمال کے لیے محفوظ بنایا جاسکے۔

خط میں مذکورہ عہدے داروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ براہِ مہربانی اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی سطح پر کسی قسم کا خوف پیدا نہ ہو، اس طرح صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔مزید یہ کہ مناسب طریقے سے صاف کیے گئے اور جراثیم سے پاک پانی سے نیگلیریا کے انفیکشن کی منتقلی کا خطرہ نہیں ہوسکتا۔ان خطوط میں کہا گیا ہے کہ نیگلیریا انفیکشن کی علامات اور اشاروں کو دیگر بیماریوں، مثلا گردن توڑ بخار، وائرل اور بیکٹیریائی تپِ دق کی اقسام کی ملتی جلتی علامات کی وجہ سے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

لہذا گردن توڑ بخار کے مشتبہ کیس میں نیگلیریا کے نمونوں کی جانچ کروانی چاہیے۔محکمہ بلدیات کے سیکریٹری کو لکھے گئے خطے میں صوبائی وزارتِ صحت نے اس کیس میں ہونے والی حالیہ موت اور گزشتہ سال رپورٹ کی گئیں 14 اموات کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے فراہم کیے جانے والے پانی میں کلورین کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

متعلقہ عنوان :