خیبر پختونخواہ حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے چینی پربرامد ی سبسڈی دینے سے انکار کر دیا ، جس سے گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں رکنے کے علاوہ 21 لاکھ افراد غیر محفوظ اور صوبہ کی تمام شوگر ملوں کی بندش کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے

پاکستان بزنس اینڈ انٹلیکچولز فورم کے صدراور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین کا بیان

بدھ 13 مئی 2015 16:03

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 مئی۔2015ء)پاکستان بزنس اینڈ انٹلیکچولز فورم (پی بی آئی ایف) کے صدراور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے چینی پربرامد ی سبسڈی دینے سے انکار کر دیا ہے، جس سے گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگیاں رکنے کے علاوہ اکیس لاکھ افراد غیر محفوظ اور صوبہ کی تمام شوگر ملوں کی بندش کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

چینی کی سرپلس پیداوار کی برامد یقینی بنانے کیلئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گزشتہ سال24 دسمبر کو ساڑھے چھ لاکھ ٹن برامدکی اجازت دی تھی۔ پاکستان میں چینی کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ سے زیادہ ہونے کے سبب دیگر برامدکنندہ ممالک سے مسابقت کیلئے دس روپے فی کلو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا جس میں سے نصف مرکزی حکومت اور نصف صوبائی حکومتوں نے ادا کرنا تھے۔

(جاری ہے)

سندھ اور پنجاب ن کی حکومتوں نے ای سی سی کے فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے چینی کی برامد پر سبسڈی دینا شروع کر دی جس سے دونوں صوبوں نے چار لاکھ ٹن اضافی چینی برامد کرڈالی جبکہ خیبر پختونخواہ نے سبسڈی دینے سے انکار کر دیا جس سے اس صوبہ سے سرپلس پیداوار کی برامداور دو لاکھ اسی ہزار کاشتکاروں کو ادائیگیاں رک گئیں۔ گنے کے کاشتکاروں کی آمدنی پر بیس لاکھ افراد کا انحصار ہے جبکہ شوگر ملز کے دیوالیہ ہونے کا امکان ہے جس میں اربوں کی سرمایہ کاری ،دس ہزار سے زیادہ کل وقتی اورپچیس ہزار سے زیادہ جز وقتی افراد ملازم ہیں۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے شوگر مل مالکان بینکوں سے قرض لینے میں حد پوری کر چکی ہیں جو پیداوار کا اسی فیصد ہوتی ہے اسلئے اگر انھیں ای سی سی کے فیصلہ کے مطابق سبسڈی نہ دی گئی تو نہ صرف اربوں روپے کا سرپلس سٹاک ضائع ہو جائے گا بلکہ ملیں بھی دیوالیہ ہو جائینگی جس سے بے روزگاری میں اضافہ اور حکومت کی آمدنی میں کمی ہو گی۔