میڈیکل کالجوں اور ہیلتھ سنٹرز پر ضرورت کیمطابق میڈیکل ٹیچرز اور ڈاکٹرز کو عمر میں رعایت دی جائیگی‘ خواجہ سلمان رفیق

علاج معالجہ کی سہولت عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے بنیادی مراکز صحت کو آؤٹ سورس کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا عمر میں رعایت کیساتھ دیگر آپشنز پر بھی غور کرنا پڑے گا، سرکاری میڈیکل کالج 18ہزار روپے سالانہ میں ڈاکٹر تیار کررہے ہیں‘ مشیر صحت پنجاب

بدھ 13 مئی 2015 17:17

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 مئی۔2015ء) مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا ہے کہ علاج معالجہ کی سہولت عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے بنیادی مراکز صحت کو آؤٹ سورس کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا، حکومت کاکام بجٹ فراہم کرنا، پالیسی بنانا اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے جبکہ فیلڈ میں پالیسی پر عملدرآمد کے لیے افسران پر ہی انحصار ہوتاہے جس کے لیے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی انتہائی ضروری ہے،میڈیکل ٹیچرز اور ڈاکٹرز کو عمر میں رعایت صرف ضرورت کے مطابق دی جائے گی۔

انہوں نے یہ بات محکمہ صحت کے پالیسی اینڈ سٹرٹیجی پلاننگ یونٹ کے زیر اہتمام ایک مقامی ہوٹل میں میڈیکل ٹیچرز اور ڈاکٹرز کو کنٹریکٹ ملازمت کے لیے عمر میں رعایت دینے کے متعلق مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سیکرٹری صحت جواد رفیق ملک، ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرزاہد پرویز، پی ایس پی یو کے پراجیکٹ ڈائریکٹر علی بہادر قاضی، میڈیکل کالجز کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ پرنسپلز، پروفیسرز ، چیف منسٹر ہیلتھ روڈ میپ ٹیم کے اراکین، مختلف اضلاع کے ای ڈی اوز ہیلتھ، سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس، پی آر ایس پی کے نمائندوں، ڈاکٹرز تنظیموں کے نمائندوں اور ہیلتھ ایکسپرٹس نے شرکت کی۔

اجلاس کے شرکاء نے میڈیکل کالجوں میں اساتذہ کی کمی اور بنیادی مراکز صحت پر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹرز کو کنٹریکٹ ملازمت کے لیے عمر میں رعایت دینے کے بارے اپنے خیالات اور تجاویز کا اظہار کیا۔ شرکاء کی آرا کی روشنی میں کئے گئے تجزیہ کے مطابق 59فیصد نے ڈاکٹرز کی عمر میں65سال تک 12فیصد نے 65سے70سال تک عمر میں رعایت دینے کے حق میں دلائل دئیے جبکہ 14فیصد نے عمر میں رعایت دینے کی تجویز کی مخالفت کی۔

سیکرٹری صحت جواد رفیق ملک نے کہا کہ ہمیں ہر قیمت پر مسلہ کا حل تلاش کرنا ہے اگر بڑے بڑے سرکاری میڈیکل کالجوں سے ریٹائرڈ پروفیسرز اور دیگر ڈاکٹرزصاحبان نجی شعبہ میں خدمات سرانجام دے سکتے ہیں تو ان کی خدمات سے سرکاری شعبہ بھی استفادہ کرسکتاہے۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ حکومت 18ہزار روپے سالانہ میں ایک ڈاکٹر تیار کرتی ہے لیکن ہمارے ہیلتھ سنٹرز پوری طرح آباد نہیں اور کوششوں کے باوجود 66فیصد تک بنیادی مراکز صحت آبا ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بنیادی مراکز صحت پر نوجوان ڈاکٹر نہیں جائیں گے تو حکومت کو عوام کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرناہوں گے جس میں سے ایک آپشن ریٹائرڈ ڈاکٹرز یا مقامی سطح پر دستیاب داکٹرز کو عمر میں رعایت دیگر کنٹریکٹ ملازمت دینا ہے۔ اسی طرح جن میڈیکل کالجوں میں اساتذہ کی کمی ہے وہاں بھی یہی پالیسی اپنا نا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ Need baseپالیسی ہوگی۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ ہیلتھ سنٹرز کے انفراسٹرکچر، ڈاکٹروں کی سکیورٹی اور دیگر معاملات کو بھی حکومت حل کرے گی۔ جواد رفیق ملک نے کہا کہ ایسے بنیادی مراکز صحت جو آبادیوں سے باہر ہیں اور بھوت بنگلہ کی شکل اخیتار کرچکے ہیں ان کا سروے ای ڈی اوز ہیلتھ کے ذریعے کروایا جائے گا اور ایسے ہیلتھ سنٹرز کی جگہ آبادی کے اندر بلڈنگرز کرایہ پرلے کر یہ سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے گریجوایٹ ڈاکٹرزسے دیہی علاقے میں2سال تک لازمی سروس کا بانڈ بھرانے کی تجویز پر بھی غور کیا جائے گا۔ خواجہ سلمان رفیق نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل کالجوں میں اساتذہ اور ہیلتھ سنٹرز پر ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شارٹ ٹرم، مڈٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی اپنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے ٹی ایچ کیو اور ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کے لئے ڈیڑھ ارب روپے کا مراعاتی پیکج دیا ہے جس سے مذکورہ ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹرزجانا شروع ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بی ایچ یو آباد کرنے کے لیے بھی مختلف مراعاتی پیکج اور اقدامات زیر غور ہیں تاہم مسئلہ کا فوری حل کرنے کے لیے میڈیکل کالجوں کے اساتذہ اور بی ایچ یو کے ڈاکٹرز کو عمر میں رعایت دے کر ریٹارڈ ڈاکٹرز کو کنٹریکٹ پر ایک مخصوص مدت کے لیے ملازمت پر رکھا جائے گا۔ خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں پروفیسروں کے ریٹائر ہونے پر کئی ہسپتالوں میں متعلقہ شعبہ کا کوئی سربراہ نہیں ہوتا، مریض اور پوسٹ گریجوایٹ کرنے والے ڈاکٹرز بھی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ قوانین عوام کی ضرورت کے لیے ہوتے ہیں جن میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرنا ضرور ی ہوتاہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر زاہد پرویز نے کہا کہ مشاورتی اجلاس کے رزلٹ بہت حوصلہ افزاء ہیں اور فیصلہ سازی میں اس سے آسانی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جدید مانیٹرنگ ٹولز ، ای مانیٹرنگ اور ڈیش بورڈ کے آنے سے اب ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ میں سامنے آرہی ہے اور اب کسی کی اچھی یا بری کارکردگی کو چھپا یا نہیں جاسکتاہے۔

متعلقہ عنوان :