سمندری کائی کو بطور فوڈ سپلیمنٹ استعمال کرنیوالے افراد میں کینسر و دیگر امراض کیخلاف قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے، ڈاکٹر عالیہ رحمن

جمعرات 14 مئی 2015 21:24

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 مئی۔2015ء)جامعہ کراچی کے آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن نے کہا کہ بحری نباتات کی انڈسٹری سے دنیا بہر میں اربوں روپے کمائے جارہے ہیں اور اس کی بڑی مقدارغذائی سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔اس کے علاوہ جدید دور میں مختلف مصنوعات مثلاً کاسمیٹکس ،ادویہ سازی اور ایگریکلچر میں بہی استعمال کیا جارہاہے۔

سمندری کائی کو بطور فوڈ سپلیمنٹ استعمال کرنے والے افراد میں کینسر اور دیگر امراض کے خلاف قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے،یہی نہیں بلکہ کولیسٹرول کونارمل رکھنے، امراض قلب کے لئے بہی مفید ہے اور اس کو بطور فوڈ سپلیمنٹ کے انحصار سے قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سمندری کائی کو بطور کھاد استعمال کرنے سے پودوں کو مختلف اقسام کے امراض سے محفوظ اورتوانا رکھا جاسکتا ہے جس سے پودوں کی افزائش میں بہتری اور پیدوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہارانہوں نے شعبہ نباتات اور آفس آف ریسرچ اینویشن اینڈکمرشلائزیشن کے اشتراک سے منعقدہ دوروزہ سیمینار بعنوان: ’’ سمندری کائی اور بحری نباتات اور پاکستان میں مارکیٹنگ کے امکانات‘‘ کی اختتامی تقریب سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار کا انعقادجامعہ کراچی کے کلیہ سماجی علوم کی سماعت گاہ میں کیا گیا تھا۔

اس موقع پر چیئر مین شعبہ نباتات پروفیسرڈاکٹر سید احتشام الحق،ڈاکٹر جاوید ذکی،ڈبلیوڈبلیو ایف کے محمد معظم اور ہمدردیونیورسٹی کے ڈاکٹر افضل رضوی بہی موجودتھے۔پروفیسر ڈاکٹر سید احتشام الحق نے کہا کہ بحری کائی سے بننے والی ادویہ سپائرولینا صحت کے لئے بہت نافع ہے جو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔دنیا میں اس وقت دوملین میٹرک ٹن سمندری کائی کو تجارتی استعمال میں لایا جارہاہے جو مختلف غذائی مصنوعات میں استعمال کی جاتی ہے جبکہ 1.5 ملین میٹرک ٹن مختلف صنعتی مصنوعات میں استعمال کی جاتی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے طویل سمندری وسائل کو استعمال میں لانے کے لئے حکومتی ادارے منصوبہ بندی کریں اور جامعہ کراچی کے ماہرین نباتات کی ٹیم کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور مچھلی کی برآمدات کی طرح سمندری کائی کی صنعت کے قیام سے وسائل کو کام میں لایاجائے تاکہ زرمبادلہ کمایا جاسکے۔پاکستان میں کوٹری کے مقام پر دریائے سندھ کے دہانے پر پانی کے بہاؤکی وجہ سے ’’ایکواکلچر‘‘ کے قیام کے وسیع امکانات موجود ہیں ۔

کراچی کے جنوب مشرقی علاقے میں موجود مینگروز اور قدرتی آبی مسکن اس سرگرمی کے لئے دنیا کے کسی بہی مسکن سے کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔یہاں یہ امر لازم ہے کہ مینگروز کی بطور ایندھن استعمال پر پابندی لگائی جائے تاکہ پاکستان میں بحری حیات کی مختلف اقسام کی نمو،افزائش ہوسکے۔واضح رہے کہ ایکواکلچر کے ذریعہ کاشت کرکے نہ غذائی ضروریات کو پوراکیا جاسکتا ہے بلکہ برآمدات میں بہی اضافے سے زرمبادلہ بہی کمایا جاسکتا ہے۔

ہمارے ساحلوں پر موجود منفرد آبی مسکن بین الاقوامی سرمایہ کاری کی ترغیب کا موجب ہوسکتا ہے۔ سابق چیئر مین ڈاکٹر جاوید ذکی نے کہا کہ دریائے سندھ صدیوں سے کانٹیننٹل شیلف کو غذائی اجزاء سے معمور پانی مہیا کرہا ہے۔ملک میں ماورائے ساحل سمندر پانی کے ذخائر جابجا پہیلے ہوئے ہیں یہ خطہ زمین ایکواکلچر کے قیام کیلئے نہایت موزوں ہیں۔ایک سروے کے مطابق دریاؤں ،ڈیموں ،ندی ،نالوں اور جہیلوں پر محیط ذخائر ملک کے آٹھ ملین ایکٹر کے رقبہ پر پہیلی ہوئی ہیں۔

پاکستان زرعی ملک ہونے کے باعث ایکواکلچر یہاں کے لئے نئی چیز معلوم ہوتی ہے۔البتہ آبی وسائل کے پیش نظر ملک میں اس صنعت کے قیام کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ضرورت منصوبہ بندی اور سائنسی طرز فکر کو روبہ عمل لانے کی ہے۔پاکستان کے ساحل سمندر پر ایکواکلچر کا قیام ابہی تک خیال خام ہی ہے جبکہ غیر ملکی اداروں کے تعان سے سونمیانی میں جہینگوں کے میری کلچر کے قیام کی کاوشیں جاری ہیں۔اس موقع پر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے محمد معظم اور ہمدرد یونیورسٹی کے افضل رضوی نے بہی اپنے مقالات پیش کئے۔