پنجاب حکومت کی کامیاب کارروائی کے باعث جعلی بیج اور ادویات کی فروخت 18فیصد سے کم ہو کر 3فیصد کی سطح پر آ گئی ہے،کاٹن کی 10ملین بیلز سے زائد کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، پنجاب میں 35لاکھ50ہزار ایکڑ رقبہ کلر و تھور سے متاثر ہے,

صوبائی وزیرزراعت ڈاکٹر فرخ جاوید کا پنجاب اسمبلی میں وقفہ سوالات میں جواب

بدھ 20 مئی 2015 21:13

لاہور ۔20 مئی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20مئی۔2015ء) صوبائی وزیرزراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے بتایا کہ پنجاب حکومت کی کامیاب کارروائی کے باعث جعلی بیج اور ادویات کی فروخت 18فیصد سے کم ہو کر 3فیصد کی سطح پر آ گئی ہے ۔ڈاکٹر فرخ جاوید نے بتایا کہ کاٹن کی 10ملین بیلز سے زائد کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ پنجاب میں 35لاکھ50ہزار ایکڑ رقبہ کلر و تھور سے متاثر ہے ۔

اس سلسلہ میں سمری ارسال کی گئی ہے کہ مذکورہ اراضی کو قابل کاشت بنانے کے لئے کسانوں کو سبسڈی دی جائے اور اس سلسلہ میں کسانوں کو جپسم کی فراہمی کی جائے گی ۔یہ بات انہوں نے بدھ کو پنجاب اسمبلی میں وقفہ سوالات کے کے دوران بتائی۔ ڈپٹی اسپیکر نے صدیق خان کے ضمنی سوال پر صوبائی وزیر زراعت کو تاکید کی صوبہ بھر میں قائم پرائیویٹ منڈیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور انہیں ریگولیٹ کر کے نیٹ میں لایا جائے ۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ پنجاب حکومت کی کامیاب کارروائی کے باعث جعلی بیج اور ادویات کی فروخت 18فیصد سے کم ہو کر 3فیصد کی سطح پر آ گئی ہے ۔ڈاکٹر فرخ جاوید نے بتایا کہ کاٹن کی 10ملین بیلز سے زائد کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، تعداد کے حوالے سے ہم بھارت سے پیچھے نہیں لیکن ایک خاص فیبرک کی تیاری کے لئے بھارت سے کاٹن منگوانی پڑتی ہے ۔

عامر سلطان چیمہ نے ضمنی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ کپا س کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے لیکن کپاس کے کاشتکار کو اسکی فصل کا پورا معاوضہ نہیں مل سکا ۔ حکومت اس طرح کا کوئی اقدام اٹھائے تاکہ کاشتکار کو سبسڈی دی جائے تاکہ اسکے نقصان کا ازالہ ہو سکے۔ صوبائی وزیر نے ایوان میں اعتراف کیا کہ یہ درست ہے کہ کسان کو اسکی فصل کا معاوضہ نہیں ملا اسکی وجہ یہ ہے کہ کپاس کی فصل کی قیمت انٹر نیشنل مارکیٹ میں طے ہوتی ہے او رجو فکس ہوتا ہے وہی چلتا ہے ۔

ہماری درخواست پر وفاقی حکومت نے ٹی سی پی کو مداخلت کے لئے کہا تھا اور گزشتہ سال جب کپاس کی فصل کی قیمت تین ہزار سے نیچے گری تو ٹی سی پی نے خریداری کی ۔ ایوان میں سوال اٹھایا گیا کہ ٹی سی پی نے کسانوں کی بجائے ملوں سے خریداری کی جس پر صوبائی وزیر نے بتایا کہ اس وقت تک کسان اپنی فصل بیچ چکے تھے ۔ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ٹی سی پی نے بڑی زیادتی کی اور پسند او رنہ پسند کی بنیاد پر خریداری کی گئی ۔

انہوں نے صوبائی وزیر کوتاکید کہ اس طرح کا میکنزم بنایا جائے جس میں ٹی سی پی کو ٹائم کا پابند بنایا جائے تاکہ کسان کو نقصان نہ ہو ۔ صوبائی وزیر نے ایوان میں یہ بھی اعتراف کیا کہ گزشتہ سال چاول کا کاشتکار بھی اپنی فصل کی پوری قیمت حاصل نہیں کر سکا اور اسے زبردست نقصان اٹھانا پڑا ۔وفاقی حکومت نے چاول کے کاشتکار کو اس کے نقصان کے ازالے کے عوض پانچ ہزار روپے فی ایکڑ دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن یہ باسمتی چاول پر ملنا تھا لیکن جب اس کا سروے کیا گیا تو باسمتی اور اری کی تفریق نہ ہو سکی اور اس سروے میں صرف چاول لکھا گیا لیکن اب متعلقہ محکموں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ وہ فصل کے کٹنے سے پہلے اسے نوٹ کریں گے ۔

پی ٹی آئی کے رکن صدیق خان نے کہا کہ 18ویں آئینی ترامیم کے بعد محکمہ زراعت صوبوں کے پاس آ گئی ہے اس کے لئے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اسکے معاملات بہتر انداز میں چل سکیں۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ قومی اسمبلی نے گزشتہ سال ایک ایکٹ پاس کیا ہے جسکے تحت سیڈ کی رجسٹریشن اور سرٹیفکیشن وفاق کا دائرہ اختیار ہے لیکن وفاق اسکی تحقیقات کے لئے کسی صوبائی محکمے کو ذمہ داری سونپ سکتا ہے ۔

احمد خان بھچر کا غلط جواب آنے پر ڈپٹی اسپیکر نے صوبائی وزیر کوانکوائری کر کے پیر کے روز رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی ۔قبل ازیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سمیت دیگر سرکاری ہسپتالوں میں عدم سہولیات اورعوام کے ساتھ ڈاکٹرز اور عملہ کے ناروا سلوک اور ایوان میں وزراء کے عدم موجودگی کے خلاف پر اپوزیشن کا احتجاج ،نعرے بازی کی۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس 10بج کے 50منٹ پر شروع ہوا ،اجلاس شروع ہوتے ہی ڈپٹی سپیکر سر دار شیر علی گورچانی نے کہا صوبائی وزیر رزاعت کی اہلیہ بیمار ہیں جس کی وجہ سے وہ ایوان میں دس منٹ تک پہنچ رہے ہیں جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے دس منٹ کا وقفہ کردیا۔پارلیمانی سیکرٹری برائے پارلیمانی امور و قانون نذر حسین گوندل چوہدری عامر سلطان چیمہ کی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے حوالے تحریک التوائے کا جواب دے رہے ،اس موقع پرتحریک انصاف کے رکن اسمبلی میاں اسلم اقبال نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کاڈیالوجی کی صورتحال بیان کی اور پنجاب حکومت کی گڈ گورننس کے خلاف بات کی تو حکومتی رکن اسمبلی میاں طارق نے کہا کہ عمران خان نے غریبوں سے چندہ جمع کرکے ہسپتال بنایا ہے مگر وہاں غریب آدمی قدم نہیں رکھ سکتا جس کے بعد اپوزیشن کے اراکین نے ایوان سے علامتی طور پر واک آوٹ کردیا ،کچھ دیر بعد ڈپٹی سپیکر نے زعیم قادری اور ملک احمد کو اپوزیشن کو منا کر لے آئے۔

قبل ازیں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ پنجا ب کی دس کروڑ عوام کے نمائندوں کا ایوان ہے مگر افسوس ایوان میں ایک بھی صوبائی وزیر موجود نہیں ہیں،اس کے جواب میں ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ وہ کیبنٹ میٹنگ میں گئے ہیں۔جب سرکاری کارروائی کا آغاز ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی کی طرف سے کرنا چاہا تو ایوان میں کوئی بھی وزیر موجود نہیں تھا ، جس کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر کو ایجنڈا ادھورا چھوڑنا پڑا اور اجلاس آج صبح10بجے تک ملتوی کردیا۔