چیف جسٹس نے وکلاء ‘ صحافیوں و سول سوسائٹی کے نمائندوں پر پولیس تشدد کا از خود نوٹس لے لیا

سیکرٹری داخلہ ‘ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب‘ چیف کمشنر آئی جی‘ڈی سی او‘ایس ایس پی اسلام آباد اور ڈیوٹی مجسٹریٹ کو نوٹس جاری‘ کل عدالت طلبی۔سپریم کورٹ کا چیف کمشنراسلام آباد کو 29 ستمبر کا سکیورٹی پلان‘ روزمرہ کا سکیورٹی پلان اور تمام ایف آئی آرز کی رپورٹس عدالت میں پیش کرنیکا حکم۔پمز اور پولی کلینک ہسپتالوں کے ڈائریکٹرز کو داخل مریضوں اور زخمیوں کی نوعیت سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

اتوار 30 ستمبر 2007 15:11

چیف جسٹس نے وکلاء ‘ صحافیوں و سول سوسائٹی کے نمائندوں پر پولیس تشدد ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین30ستمبر2007) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہفتے کے روز شاہراہ دستور پر وکلا،صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر پولیس تشدد کا ازخود نوٹس لے لیا اور سیکریٹری داخلہ،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب،چیف کمشنر ،آئی جی ،ڈی سی اور ایس ایس پی اسلام آباد اور ڈیوٹی مجسٹریٹ کو نوٹسز جاری کرکے کل عدالت میں طلب کر لیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد کو 29ستمبر کا سیکورٹی پلان،روز مرہ کا سیکورٹی پلان اور تمام ایف آئی آرز کی رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے‘ جبکہ چیف جسٹس نے پمز اور پولی کلینک ہسپتالوں کے ڈائریکٹرز سے دونوں ہسپتالوں میں داخل کئے گئے مریضوں اور ان کی زخموں کی نوعیت کے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ از خود نوٹس رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیر حسین کی رپورٹ پر لیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 29 ستمبر کو شاہراہ دستور پر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے وکلاء‘ صحافیوں اور عوامی نمائندوں پر بدترین تشدد کیا گیا انہوں نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے پھینکے گئے آنسو گیس کے شیل اور پتھر سپریم کورٹ کے اندر آکر گرے جس پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ‘ چیف کمشنر اسلام آباد‘ آئی جی پولیس اسلام آباد‘ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ‘ ایس ایس پی اسلام آباد اور ڈیوٹی مجسٹریٹ کو نوٹس جاری کردیئے اور انہیں وضاحت کیلئے آج پیر کو عدالت میں طلب کرلیا ہے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو عدالتی معاونت کیلئے طلب کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں فل بینچ اس از خود نوٹس کی سماعت کریگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے رجسٹرار کی رپورٹ پر جو حکم جاری کیا ہے اس میں چیف کمشنر ‘ اور آئی جی پولیس سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ 29 ستمبر کا سکیورٹی پلان اگر وزارت داخلہ نے انہیں دیا ہے وہ بھی عدالت میں پیش کریں۔ اس کے علاوہ ایجنسیوں نے جو روزانہ کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوائی ہے اس کی کاپی ‘ تمام ایف آئی آرز جو وکلاء ‘ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے خلاف درج کرائی گئی ہیں وہ شواہد کے ساتھ عدالت کے اندر پیش کی جائیں۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس نے نجی ٹیلی ویژن چینلز جن میں جیو‘ اے آر وائی اور آج شامل ہیں ان کے نمائندوں کو نوٹس دیا ہے کہ وہ اس واقعے کے حوالے سے ریکارڈ کیا جانے والا تمام مواد عدالت میں پیش کریں جبکہ اس کے علاوہ وزارت اطلاعات کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر یہ اشتہار نشر کریں جس میں یہ کہا جائے کہ جو بھی اس معاملے میں گواہان ہے وہ اپنے بیانات حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس نے پولی کلینک کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور پمز ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ایم ایس کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اس دن جتنے زخمی وہاں پر گئے انہیں دی جانے والی طبی امداد کے بارے میں ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔ جبکہ ڈاکٹر فقیر حسین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 29ستمبر کو وکلاء ‘ شاہراہ دستور اور سپریم کورٹ کے قریبی علاقوں میں احتجاج کے لئے اکٹھے ہوئے۔

اس دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ سپریم کورٹ کے گیٹ کے سامنے جھڑپیں شروع ہوگئیں اور پولیس نے سپریم کورٹ کی عمارت تک ان کا تعاقب کیا۔ اس دوران اس وقت ڈیوٹی پر مامور ایس ایس پی اسلام آباد سے کہا گیا کہ وہ اپنے اہلکاروں کو سپریم کورٹ کی بلڈنگ سے دور رکھیں جس پر وہ اہلکار واپس چلے گئے انہوں نے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے پوزیشنیں سنبھال لیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پریس اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات طارق عظیم کے ساتھ بھی الیکشن کمیشن کے دفترکے سامنے بدسلوکی کی گئی جبکہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ بھی پولی کلینک ہسپتال کے سامنے اسی طرح کا سلوک کیا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جب وکلاء نے نعرے بازی کی تو اس دوران پولیس کی طرف سے سخت جواب آیا۔ جبکہ وردی کے علاوہ کئی پولیس اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے احتجاجی مظاہرہ کرنے والے وکلاء پر تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس عمل میں کئی وکلاء زخمی ہوگئے اور ان کو طبی امداد کیلئے سپریم کورٹ کی ڈسپنسری میں لایا گیا۔ ان کی تعداد دس سے پندرہ تک تھی جن میں وکلاء کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندے بھی شامل تھے۔ تاہم بھیڑ کے باعث ان کے نام ریکارڈ نہ کئے جاسکے۔ طبی امداد کے بعد کچھ زخمیوں کو فارغ کردیا گیا جبکہ دیگر کو مزید علاج کیلئے پولی کلینک ہسپتال منتقل کردیا گیا۔