آئین کے آرٹیکل اکسٹھ اور باسٹھ کااطلاق نہ ہو تو کوئی ذہنی مریض بھی صدر بن سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں اعتزاز احسن کے دلائل،سماعت کل تک ملتوی۔اپ ڈیٹ

بدھ 24 اکتوبر 2007 14:07

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24اکتوبر۔2007ء) سپریم کورٹ میں صدر جنرل پرویز مشرف کی اہلیت کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی ہے ۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کے وکیل چو ہدری اعتزاز احسن۔۔۔ صدر پرویز مشرف کے موجودہ اسمبلی سے بطور صدر انتخاب کے خلاف کل بھی دلائل جا ری رکھیں گے ۔ سماعت کے دوران گیارہ رکنی بینچ میں شامل جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر چیف ایگزیکٹو آرڈر کو ماورائے آئین تصور کیا جائے تو پھر صرف ایک صدر کا تقرر ہی نہیں بلکہ تمام اقدامات ماورائےآئین قرار پائیں گے۔

جس میں ججوں کا تقرر بھی شامل ہے۔جسٹس جمشید علی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اکتیس دسمبر دو ہزار سات کے بعد آرٹیکل تریسٹھ ون ڈی بحال ہو چکا ہے ۔

(جاری ہے)

جس کے تحت سروس آف پاکستان میں موجود کوئی شخص صدارتی انتخاب کے لئے اہل نہیں ہو سکتا۔سماعت کے دوران جسٹس ریٹائرڈ وجیح الدین احمد کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ آئین کے تحت صدر تیسری مدت کے لئے صدارت کے امیدوار نہیں ہو سکتے۔

انھوں‌نے یہ عہدہ پہلے عہدے کے تسلسل میں پر کیا تھا اس لئے ان کی صدارت کا بقیہ عرصہ مکمل مدت تصور ہو گی۔ صدر کے انتخاب کے لئے اہلیت اور نا اہلیت کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کے حوالے سے انہوں نے کہا اگر آرٹیکل تریسٹھ کا اطلاق نہ کیا جائے تو پھر کوئی پاگل شخص بھی صدارت کا اہل قرار پائے گا۔اس موقع پر بینچ میں شامل جج جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن رولز کے تحت صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے کسی بھی شخص کا صحیح الدماغ ہونا ضروری ہے۔

آج سماعت کے دوران اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر آئین کے آرٹیکل اکسٹھ اور باسٹھ کااطلاق نہ ہو تو کوئی ذہنی مریض بھی صدر بن سکتا ہے ۔ اس موقع پر بینچ میں شامل جج جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن رولز کے تحت صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے کسی بھی شخص کا صحیح الدماغ ہونا ضروری ہے ۔ اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں موٴقف اختیار کیا ہے کہ صدر پرویز مشرف آئین کے تحت تیسری مدت کے لئے صدارتی امیدوار بننے کے اہل نہیں ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے اعتزاز احسن نے استفسار کیا کہ صدر رفیق تارڑ کو رخصت کرنے کے بعد صدر مشرف نے عہدہ صدارت آئین کے تحت سنبھالا تھا یا چیف ایگزیکٹو آردڑ کے تحت سنبھالا تھا۔ جس پر چو ہدری اعتزاز احسن نے جوابی دلائل میں کہا کہ صدر کا عہدہ آئین کے تحت آتا ہے اس لئے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ صدر نے یہ عہدہ کسطرح حاصل کیا۔

بنچ کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ بات اس صورت میں درست تصور کی جاسکتی ہے کہ جب آپ چیف ایگزیکٹو کے احکامات کو آئینی احکامات کے مساوی تصور کریں۔ سماعت کے دوران گیارہ رکنی بینچ میں شامل جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر چیف ایگزیکٹو آرڈر کو ماورائے آئین تصور کیا جائے تو پھر صرف ایک صدر کا تقرر ہی نہیں بلکہ بطور چیف ایگزیکٹو کئے جانے والے تمام اقدامات ماورائے آئین قرار پائیں گے ۔جس میں ججوں کا تقرر بھی شامل ہے ۔ اعتزاز احسن کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل تک کے لئے ملتوی ہو گئی ۔