برطانیہ میں ڈاکٹروں کو پہلی بار دس بچہ دانیوں کے ٹرانسپلانٹ کی اجازت مل گئی

بدھ 30 ستمبر 2015 16:52

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 ستمبر۔2015ء) سوئیڈن میں مادر رحم یا بچہ دانی کے ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کے بعد برطانیہ میں بھی ڈاکٹروں کو پہلی بار دس بچہ دانیوں کے ٹرانسپلانٹ کی اجازت مل گئی ہے۔شعبہ طب میں تجربے کے طور پر اس کی جراحت سے متعلق ضابطہ اخلاق کو منظوری دے دی گئی ہے اور اسے آئندہ موسم بہار میں شروع کیا جائیگا۔تقریباً ہر پانچ ہزار خواتین میں سے ایک خاتون میں پیدائشی طور پر بچہ دانی نہیں ہوتی ہے اور بہت سی دیگر خواتین کینسر کے سبب اس سے محروم ہوجاتی ہیں۔

اگر یہ تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو برطانیہ میں ٹرانسپلانٹ کی گئی بچہ دانی کے ذریعے پہلی بار 2017 کے اواخر یا پھر 2018 کے اوائل میں بچہ پیدا ہوسکتا ہے۔پہلے ہی ایسی تقریباً سو خواتین کی نشاندہی کی گئی جو عطیہ کی گئی مادر رحم سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

لندن میں چیلسی ہسپتال اور کوئن شارلیٹ کے ماہرگائناکولوجسٹ ڈاکٹر رچرڈ سمتھ جو اس پروجیکٹ پر تقریباً 19 برس سے کام کرتے رہے ہیں، ٹرانسپلانٹ کاری کی اس ٹیم کی سربراہی کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ جوڑوں کا بے اولاد ہونا بھی خطرناک ہوسکتا ہے لیکن یہ تکنیک ان افراد کے لیے امید کی کرن ثابت ہوسکتی جن کے پاس سرجری یا گود لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ میں ایسی بہت سی خواتین سے ملا ہوں جو یہ چاہتی ہیں اور یہ ان کے اور ان کے والدین کیلئے حقیقت میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے جوڑوں کیلئے بے اولاد ہونا تباہ کن ہے۔

ڈاکٹر رچرڈ سمتھ کے مطابق خواتین میں بانجھ پن کا علاج مشکل کام ہے۔ سروگیسی ( کرائے کی مادر رحم) ایک متبادل تو ہے تاہم اس سے خواتین کے اپنے خود کے بچے کو اپنی مادر رحم میں پالنے کی خواہش تو پوری نہیں ہوسکتی۔اس کیلئے جن خواتین کا انتخاب کیاجائیگا ان میں ان تمام شرائط کا پایا جانا لازمی ہے، جیسے ان کی عمر 38 برس سے زیادہ نہ ہو، ان کے ساتھ لمبے عرصے کے لیے ان کا ساتھی ہو اورصحت مندی کے زمرے میں آنے والا وزن بھی ہو۔برطانیہ میں اب تک جن 300 خواتین نے اس کے لیے رابطہ کیا ہے اس میں سے صرف 104 خواتین ہی ان شرائط پر پوری اتری ہیں۔