ذہنی بیماری میں مبتلا ہر شخص اپنے گھر ،معاشرے کا کار آمد فرد بن سکتا ہے، ڈاکٹرمبین اختر

پیر 12 اکتوبر 2015 16:59

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 اکتوبر۔2015ء)کراچی نفسیاتی ہسپتال کی مرکزی سماعت گاہ ناظم آباد نمبر 3 میں ایک سیمینار ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی اس موقع پر منتظم اعلی ڈاکٹر سید مبین اختر ،ڈاکٹر اختر فرید صدیقی،کوثر مبین ، مہہ جبین اختر، ماہ رخ اختر اور راشد حسن نے خطاب کیا ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا 66 سال قبل 1948ء میں ورلڈ فیڈریشن آف مینٹل ہیلتھ کا قیام وجود میں آیا جس کا مقصد دنیا کے ممالک میں ذہنی اور نفسیاتی امراض کی آگاہی،تدارک اور علاج ہے آج اس فیڈریشن کے دنیا بھر میں ایک سو پچاس سے زائد مماک میں ممبر موجود ہیں۔

1992ء میں ورلڈ فیڈیریشن آف مینٹل ہیلتھ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن 10 اکتوبر کا دن منتخب کیا جس کا مقصد ہر سال ایک خاص موضوع ہوتا ہے 2012ء میں موضوع تھا ”Depression A Global crises“ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں 154 ملین افراد ڈپریشن کا شکار ہیں اور یہ تعداد 2020 ء میں اس قدر زیادہ ہوجائیگی ڈپریشن دل کی بیماری کے بعد دنیا بھر میں سب سے بڑی بیماری بن جائیگی اسی طرح 2013ء میں موضوع تھا ”Mental Health and Older Adults “ جس کا مقصد اس بات کی ترویج ہے

کہ کس طرح سے بزرگ اور بڑی عمر کے افراد بہتر ذہنی صحت رکھ سکتے ہیں اور اس عمر میں ایک با مقصد زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اچھی جسمانی صحت اور لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

2014ء میں ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے کا موضوع تھا ” Living With schizophrenia“ جبکہ 2015ء میں ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈاے کا موضوع ہے ”ذہنی صحت میں عظمت “ چند سال پہلے تک اگر کسی کو schizophrenia کی بیماری تشخیص ہوجاتی تھی تو نہ صرف مریض بلکہ اس کے گھر والوں کے لیے ایک شدید ذہنی تکلیف بلکہ معاشرے کے لیے معاشی و سماجی بوجھ تصور کیا جاتا تھا مگر اب نئی ریسرچ اور ادویات کی بدولت schizophrenia کا ہر مریض اپنے گھر اور معاشرے کا کار آمد فرد بن سکتا ہے ۔

تندرستی کیا ہے تندرستی کے لیے انسان کا جسمانی ذہنی اور معاشرتی طورپر تندرست ہونا ضروری ہے انسان کی نیند اور بھوک میں تبدیلی کا آنا مزاج میں تبدیلی مثلا اُداس رہنا ،مایوسی کی باتیں کرنا ،نا اُمیدی، منفی خیالات،گھر والوں اور دوستوں سے الگ تھلگ ہوجانا، جاب اور اسکول کے کام میں فرق،صفائی اور ستھرائی کا خیال نہ رکھنا، بے انتہا غصہ اور بات بات پر لڑ پڑنا ،شک و شبہات کرنا ،گھبراہٹ، بے چینی یا پھر نارمل جذبات یا احساسات سے عاری ہو جانا ، خودکشی کی باتیں کرنا۔

نفسیاتی مریض کو اگر ابتداء میں ہی ماہر نفسیات دکھادیا جائے تو اس کا علاج کافی بہتر طریقہ سے ممکن ہو جاتا ہے اورمریض کے ٹھیک رہنے کے امکانات بھی بہتر رہتے ہیں ورنہ مرض طول پکڑ کر ڈاکٹرز اور گھر والوں کو ذہنی اذیت سے دو چار کر دیتا ہے ایک اچھا ڈاکٹر صرف بیماری کو ٹریس نہیں کرتا بلکہ وہ انسان کو Heal کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے مریض کے اندر برداشت ،۔ضبط ، خود اعتمادی اور عزّت نفس پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔