سندھ حکومت نے قحط زدہ علاقے تھر کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا

Umer Jamshaid عمر جمشید منگل 9 فروری 2016 11:03

تھر(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔ 09 فروری۔2015ء) سندھ حکومت نے قحط زدہ علاقے تھر کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے، گذشتہ دو سالوں میں یہ تیسرا عدالتی کمیشن ہے۔ ان کے علاوہ تین وزارتی کمیٹیاں اور ایک پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی بن چکی ہے۔وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کمیشن کے اعلان کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کی حکومت نے تھر میں غربت کے خاتمے اور صحت کی سہولیات کی بہتری کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن ان کے باوجود میڈیا رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ ان کے لیے پریشان کن ہے۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعلیٰ نے تھر میں موجودہ تمام صورت حال کی تحقیقات کرنے کے لیے چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن کو ہدایت کی ہے کہ وہ دو ارکان جسٹس (ر) غلام سرور کورائی اور ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ارجن رام پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں۔

(جاری ہے)

تھر میں قحط سالی اور بچوں کی اموات سندھ حکومت کے لیے درد سر بن چکی ہے، اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب فروری 2014 میں اموات میں شدت آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے نوٹس لے کر صوبائی حکومت کو امدادی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے مجرمانہ غفلت کا تعین کرنے کے لیے ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد ڈویڑن ثنااللہ عباسی کو انکوائری افسر تعینات کیا تھا۔ ثنا اللہ عباسی نے محکمہ صحت، لائیو اسٹاک اور خوراک کو صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا اور رپورٹ ہائی کورٹ میں پیش کی، لیکن ایڈووکیٹ جنرل نے اس رپورٹ کو حکومت کے خلاف سازش قرار دے کر مسترد کر دیا۔

صوبائی حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ قربان علوی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنایا جن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی، اس سے قبل سیلاب کی تباہ کاریوں اور بلدیہ فیکٹری واقعے کی تحقیقات بھی انھیں دی گئی تھی وہ رپورٹیں بھی منظر پر نہیں لائی گئیں۔سیاسی دباوٴ اور میڈیا کی تنقید کے بعد صوبائی وزیر منظور وسان کو تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا، ان کی رپورٹ ڈی آئی جی ثنااللہ عباسی کی رپورٹ سے مطابقت رکھتی تھی۔

اس رپورٹ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو شوکاز نوٹس دینے کی خبریں سامنے آئیں لیکن بعد میں منظور وسان رپورٹ کے مندرجات اور پیپلز پارٹی قیادت شوکاز نوٹس سے مکر گئی۔صوبائی وزیر صحت جام مہتاب ڈہر کی سربراہی میں وزرارتی کمٹی تشکیل دی گئی جبکہ سینیٹر تاج حیدر کو امدادی کارروائیوں کا نگران مقرر کیا گیا دونوں نے قحط سالی اور بچوں کی اموات کو مخالفین کی سیاست اور صحافتی مبالغہ قرار دیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں جب تحقیقات کا معاملہ اٹھا تو حکومت نے جسٹس ریٹائرڈ غلام سرور کورائی اور جسٹس ارجن داس تلریجا پر مشتمل کمیشن تشکیل کردیا، جس نے تھر جا کر کچھ بیانات بھی لیے لیکن ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہونے کی وجہ سے اس کمیشن کو معطل کر دیا گیا۔تھر دیپ نامی غیر سرکاری تنظیم کے اہلکار ڈاکٹر سونو کنھگارانی کا کہنا ہے کہ حالیہ کمیشن بھی گذشتہ کمیشنوں کا ہی تسلسل ہے جس کا مقصد صرف حکومتی اقدامات کا دفاع کرنا ہے نہ کہ صورت حال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ اور تحقیق کرکے سفارشات تجویز کی جائیں۔

تھر میں قحط سالی سے نمٹنے کے لیے مستقل اقدامات کے لیے پالیسی سازی کی بھی کوشش کی گئی لیکن یہ اقدامات پایہ تکمیل تک پہنچ نہیں پائے۔اویئر نامی غیر سرکاری تنظیم کے ڈائریکٹر علی اکبر راہموں اس مشاورتی کمٹی کے رکن رہے ہیں، ان کے مطابق حکومت نے برسوں کے بعد سندھ ڈراوٴٹ مینیجمنٹ اینڈ مٹیگیشن پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت تھر ڈیویلپمٹ اتھارٹی بنانی تھی جس کے لیے کمیٹی نے اپنی سفارشات جمع کرائیں لیکن اس کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

تھر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا جو مسودہ اسمبلی میں پیش کیا گیا وہ بھی سفارشات کے برعکس تھا، لوگ تاحال مستقل حل کے منتظر ہیں اور حکومت کمیشن بناکر اصل مسئے سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔‘
حالیہ جوڈیشل کمیشن سے قبل صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ کی سربراہی میں پانچ رکنی وزارتی کمٹی نے بھی تھر کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد تھر میں رعایتی نرخوں پر گندم کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

مٹھی پریس کلب کے صدر صحافی کھاٹاؤ جانی کہتے ہیں کہ حکومت کی بنائی گئی کمیٹیاں اور کمیشن دیہات میں جانے کی بجائے سول ہسپتال کا دورہ کرکے مٹھی شہر میں اجلاس اور ملاقات کرتی ہیں اور وہیں سے روانہ ہو جاتی ہیں: ’قحط میں بچوں کی اموات کے واقعات زیادہ تر دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں جبکہ کسان بھی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اس لیے یہ وزرا اور کمیشن حقیقی صورت حال کی شدت سے لاعلم رہتے ہیں اور آگے ”سب ٹھیک ہے“ کی رپورٹ دے دیتے ہیں

متعلقہ عنوان :