تیس برس میں دنیا کی نصف آبادی کی ’نظر خراب‘ ہو جائے گی

2050میں دور کی نظر کی کمی سے مستقل اندھے پن میں سات گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ برطانوی میڈیا کا دعویٰ

پیر 22 فروری 2016 13:38

تیس برس میں دنیا کی نصف آبادی کی ’نظر خراب‘ ہو جائے گی

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22 فروری۔2016ء) آئندہ تیس برسوں میں دنیا کی نصف آبادی کی دور کی نظر خراب ہو جائے گی۔ تقریباً 5 ارب لوگ 2050تک زیادہ دور تک نہیں دیکھ پائیں گے۔2000کے مقابلے میں 2050میں دور کی نظر کی کمی سے مستقل اندھے پن میں سات گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔برطانوی میڈیا نے ایک سائنسی جریدے کے حوالے سے بتایا ہے کہ دور کی نظر کی خرابی مستقل اندھے پن کی پانچویں بڑی وجہ ہے۔

ماہرین کے نزدیک دنیا بھر میں لوگوں کی دور کی نظر کی خرابی میں اضافے اور اس سے مستقل اندھے ہونے کی وجوہات میں دن میں روشنی کی کمی اور کمپوٹر، ٹی وی یا موبائل فون کی اسکرین پرزیادہ وقت صرف کرنا شامل ہے۔ بچوں کو آؤٹ ڈور کیلئے کم وقت دیا جارہا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ طرز زندگی نے دنیا میں اندھے پن کی شرح میں اضافہ کیا ہے،بچے قدرتی روشنی میں زیادہ وقت نہیں گزارتیاور زیادہ وقت کتابیں پڑھنے یا اسکرین پر نظرے جمائے رکھنے سے یہ مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

(جاری ہے)

ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بچوں کی نظر باقاعدگی سے چیک کرائیں۔ انہیں باہر کھیلنے کیلئے بھیجیں اور مطالعہ اور الیکٹرانک آلات کے استعمال کو محدود کریں۔دور کی نظر کم ہونے کو طبی اصطلاح میں’مائی اوپیا‘ کہا جاتا ہے اس میں کچھ فاصلے سے اشیاء واضح دکھائی نہیں دیتیں اور جب یہ مسئلہ کسی کوایک بار ہو جائے تو اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے کیونکہ روشنی ’ریٹینا‘تک پہنچ نہیں پاتی جو آنکھ کے پیچھے ہوتا ہے۔

اس کے بجائے کرنیں ریٹینا کے سامنے مرکوز رہتی ہیں جس سے دور کی اشیاء دھندلاپن ظاہر کرنے لگتی ہیں۔دور کی کم نظری پیدائشی بھی ہو سکتی ہیں تاہم عموماً بچپن سیشروع ہوتی ہے اور عمر کے ساتھ اس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے بالغ افراد جن میں ماضی میں کبھی اس کے اثرات نہیں تھے ان میں بھی یہ بیماری سامنے آسکتی ہے جسے گلاسز،کنٹیکٹ لینز اور سرجری سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔اگر دور کی نظر زیادہ شدید اختیار کر جائے تو آنکھ کے مسائل کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس وقت دنیا میں تقریباً دو ارب افراد کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ان کی دور کی نظر خراب ہے

متعلقہ عنوان :