اچھی وافر اور غذائیت سے بھرپور خوراک ہر انسان کا بنیادی حق ہے،غذائی ماہرین

جمعہ 1 اپریل 2016 21:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم اپریل۔2016ء) خوراک و غذا سے متعلق ماہرین نے کہا ہے کہ اچھی وافر اور غذائیت سے بھرپور خوراک ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لہٰذا دنیا بھر کی حکومتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسی غذا کی فراہمی یقینی بنائے جو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کی ضمانت فراہم کرے۔ ان خیالات کا اظہار ایک دو روزہ عالمی کانفرنس میں کیا گیا جس کا موضوع ’’پہاڑی علاقوں میں زراعت اور غذائیت‘‘ پر مبنی تھا۔

یہ کانفرنس جمعرات کو ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی۔ اور جمعہ کو ماہرین اور شرکاء کی سفارشات کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔ خوراک و زراعت سے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ غذائیت سے خالی خوراک بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کے لئے کئی مسائل کا باعث بنتی ہے۔

(جاری ہے)

جس میں قد کی کمی، وزن کی کمی یا بھروتی یا موٹاپہ شامل ہے۔ ان مسائل سے نہ صرف خاندانی بگاڑ پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ پیچیدہ معاشرتی مسائل کا پیشہ خیمہ بھی ثابت ہوتی ہے۔

ان مسائل سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے اور پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں کی زرعی استعداد کو کیسے بڑھایا جائے تاکہ وہ جدید طریقوں کے استعمال سے زراعت کو ترقی دے سکیں اور اپنی خوراک میں غذائیت کے استعمال دوچند کر سکیں۔ یہ ان ممالک کا مشترکہ قومی مسئلہ بن کر سامنا آیا ہے جہاں عوام کو خوراک میں غذائیت کی ضروری مقدار حاصل نہیں ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، نیپال، پیرو، ایتھوپیا اور کرغستان نے پہل کر کے ان عوامل کا جائزہ لیا ہے جو خوراک و زراعت میں پسماندگی کی وجہ بنے ہیں۔

سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ اور جرمنی کے ماہرین نے بھی اس کانفرنس میں اپنے تجربات و مشاہدات سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا۔ یہ کانفرنس انٹرکوآپریشن کے زیراہتمام سوئس ڈویلپمنٹ ایجنسی اور آئی فام آرگینک کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ کانفرنس کے پہلے روز پاکستان اور غیر ملکی ماہرین نے خوراک میں غذائیت کی ضروری مقدار کی عدم دستیابی کو بچوں کی شرح اموات میں اضافے، جسمانی لاغر پن اور موٹاپے کی اصل وجہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ غذائیت مختلف اجناس اور پھلوں اور منرلز سے حاصل ہوتی ہے جن میں قدرتی طور پر وٹامن اے، فولک ایسڈ اور زنک کے اجرا موجود ہوتے ہیں۔ تاہم روایتی زرعی طریقوں سے نہ تو زراعت ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی خوراک کا وہ معیار اس بات پر زور دیا گیا کہ زراعت میں نئی ٹیکنالوجی کے دنوں اعلیٰ اور معیاری بیجوں کے استعمال اور کاشتکاروں کی تربیت ہی سے غذائی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

بعض پاکستانی ماہرین کا کہنا تھا کہ توانائی کے مقابلہ میں غذائیت ہمار فوری مسئلہ ہے جس پر ہماری مجموعی قومی آمدنی کا دو فیصد خرچ ہوتا ہے۔ اس موقع پر انٹر کوآپریشن کی پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر ارجمند نظامی، آئی فام آرگینک انٹرنیشنل کے ڈاکٹر مارکس، پاکستان میں ایس ڈبلیو سی کی نمائندہ بوری سٹیفنی اور دیگر ماہرین نے خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :