دوا ساز اداروں نے پٹرول اور ڈاکٹر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 20 اضافہ کی تجویز حکومت کو بھیج دی

منگل 27 مئی 2008 19:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27مئی۔2008ء) پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرز ایسوسی ایشن نے حکومت کو ادویات کی قیمتوں میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ کی تجویز بھیجی ہے بصورت دیگر دوا ساز اداروں کو بند کرنے کی دھمکی دیدی ہے ، جس سے ملک میں دواؤں کی کمی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے ، بھارت میں پچیس ہزار جبکہ پاکستان میں چار سو دوا ساز ادارے ہیں پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں ادویات کی قیمتیں زیادہ نہیں ہیں ، منگل کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئر مین کاشف سجاد شیخ ، ناردرن ریجن کے چیئر مین خواجہ محمد اسد نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت افراط زر کی شرح میں اضافہ اور قیمتوں میں تفاوت ہے انہوں نے کہا کہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو آٹھ سال پہلے قیمتوں میں اضافہ لیڈر پرائس فارمولا کے تحت دیا گیا تھا اس فارمولے کی وجہ سے ایک طرح کی دواؤں کی قیمتوں میں بہت نمایاں فرق نہیں ہونا چاہیئے تھا تاہم بعد میں یہ پالیسی ختم کردی گئی اور ایک ہی دوا کیلئے مختلف کمپنیوں کو مختلف قیمتیں دے دی گئیں ، قیمتوں میں اس فرق کی وجہ سے انڈسٹری میں سخت بے اطمینانی پائی جاتی ہے ، مرکزی چیئر مین نے کہا کہ حکومت اور عوام کے ذہنوں میں عام تاثر پایا جاتاہے کہ دوا ساز ادارے بہت زیادہ مفناع کماتے ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس وقت تو یہ صنعت شدید بحران کا شکار ہے اور دوا سازی درحقیقت غیر منافع بخش ہوچکی ہے کیونکہ گزشتہ سات سالوں میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں سترہ فیصد کم ہوئی ہے ، یورپین یورو کی قیمت میں بتیس فیصد اضافہ ہوا ہے ، انہوں نے کہا کہ چین نے اپنی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں پندرہ فیصد بڑھائی ، یہاں یہ کہنا ضروریہے کہ چین دوا سازی کی صنعت کا سب سے بڑا خام مال مہیاکرنے والا ملک ہے ، اسی طرح تیل کی قیمت فی بیرل ساٹھ ڈالر سے بڑھ کر 130 ڈالر پر جا پہنچی ، وہ تمام خام میٹریل جو پٹرولیم سے بنتے ہیں ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا جبکہ بجلی گیس ٹرانسپورٹ اور مزدوری کی شرح میں تقریبا سو فیصد اضافہ ہوا ، اس صورتحال میں دوا سازی کے بنیادی اخراجات میں سو 50-100% اضافہ ہوچکا ہے ، انہوں نے کہا کہ حکومت کو تجویز بھیجی گئی ہے کہ دوا ساز اداروں کو اجازت دی جائے کہ وہ SRO471 مورخہ جون 1993.12 کی روشنی میں لیڈر پرائس کے مطابق قیمتیں ایڈجسٹ کرلیں ، اس سے زیادہ تر صنعت کار مطمئن بھی ہو جائینگے اور عوام کی طرف سے رد عمل بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ متناسب تبدیلی ہوگی SRO471 سے متصادم تمام احکامات منسوخ کردیئے جائیں ، انہوں نے کہا کہ تمام خام میٹریل کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر دواؤں کی قیمتوں میں پندرہ ، بیس فیصد اضافے کی اجازت دی جائے ، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ ادویہ سازی کی صنعت پہلے ہی شدید دباؤ میں آچکی ہے جس کی وجوہات اوپر بیان کی جاچکی ہیں ، اس کے باوجود تقریبا سب ہی خام اور پیکنگ میٹریلز پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس لاگو ہے ، تیار شدہ دواؤں پر سیلز ٹیکس نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ انڈسٹری جو ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرتی ہے وہ عوام سے وصول نہیں کرتی بلکہ خود ہی برداشت کرتیہے ، یہ دوا سازی کی قیمت میں اضافہ کی ایک اور اہم وجہ ہے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ دوا سازی سے متعلق خام اور پیکنگ میٹریلز کو کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ، انہوں نے کہا کہ ایل سی مارجن پینتیس برائے درآمدات سٹیٹ بینک کے حالیہ فیصلے کے مطابق زیادہ تر اشیاء کی درآمد letter of credit کھولنے پر35 فیصد رقم پہلے جمع کروانی ہو گی ادویہ سازی سے متعلق اسی فیصد سے بھی زیادہ میٹریلز درآمد ہوتے ہیں چونکہ ان کی کوئی صنعت پاکستان میں موجود نہیں ہے ، سٹیٹ بینک کے فیصلے کی وجہ سے درآمدات کیلئے زیادہ سرمایہ درکار ہوگا، جس کی وجہ سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا ماضی میں بھی ادویہ سازی کو ایسے قوانین میں مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جو اب بھی ہونا چاہیئے ، ایک سوال کے جواب میں محمد اسد نے کہا کہ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ملکی دوا ساز ادارے ملکی ضروریات کا تقریبا اسی مہیا کرتے ہیں ، اگر حکومتی اقدامات ، افراط زر اور بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ملکی دوا ساز ادارے بند ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو ایک جانب دواؤں کی کمی کا شدید بحران پیدا ہوگا اور دوسری جانب غیر ممالک سے ادویات درآمد کرنے کیلئے زرمبادلہ درکارہوگا جو ملکی خزانے پر ایک اور سخت بوجھ ہوگا �

(جاری ہے)

متعلقہ عنوان :