آئندہ 24 برسوں میں پاکستان میں زیابطیس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوزکرجائیگی ،پروفیسر عبدالصمد

ہفتہ 20 اگست 2016 16:45

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔20 اگست ۔2016ء) عالمی زیابطیس فیڈریشن کے صدر اور معروف ماہر امراض زیابطیس پروفیسر عبد الصمد شیرا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ 24 برسوں میں پاکستان میں زیابطیس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 40لاکھ سے تجاوز کر جائے گی جبکہ اتنے ہی لوگوں کے اس مرض سے متاثرکے امکانات بڑھ جائیں گے ۔ پاکستان میں اس وقت دو بیماریاں وبائی صورت اختیار کر چکی ہیں جن میں موٹاپا اور زیابطیس شامل ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی زیابطیس و اینڈوکرائنالوجی کانگریس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانگریس کا افتتاح بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر زاہدہ بقائی نے کیا اس موقع پر عالمی زیابطیس فیڈریشن کے نائب صدراور بنگلہ دیش کے ماہر امراض زیابطیس ڈاکٹر اختر حسین ، کانگریس کے کوچیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبد الباسط اور ماہر امراض زیابطیس پروفیسر زمان شیخ سمیت 26سے زائد ممالک کے 46ماہرین امراض زیابطیس اور پاکستان کے شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شریک ہیں ۔

(جاری ہے)

پروفیسر عبد الصمدشیرا کا کہنا تھا کہ طرز ندگی سے ہونے والی زیابطیس ایک خاموش مرز ہے جس کا ابتدائی 6برس میں پتہ ہی نہیں چلتا اور مریض کو اس وقت اپنی بیماری کا علم ہوتا ہے جب وہ ناقابل علاج بیماری کا مکمل طور پر شکار ہوچکا ہوتا ہے ، انہوں نے واضح کیا کہ بار بار پیشاب آنا ، پیاس لگنا ، حلق خشک ہوجانا اور اسی طرح کی دوسری علامات کا طرز زندگی سے ہونے والی زیابطیس سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عام طور پر پائی جانے والی زیابطیس ٹائپ ٹو ہے جو ایک خاموش قاتل اور خفیہ بیماری ہے جو موٹاپے ، بے تحاشہ کھانے اور کسی قسم کی ورزش نہ کرنے اور کام نہ کرنے کے نتیجے میں لاحق ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے بچاؤ کا واحد حل کم کھانا اور زیادہ چلنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہر وہ شخص جو بر اعظم ایشیاء میں پیدا ہوا ہے اور اس کی عمر 30سال ہے اور اس کی کمر 35انچ یا اس سے زائد اور اس کے خاندان میں زیابطیس کا مرض پایا جاتا ہے اُس کو زیابطیس لاحق ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔

عالمی زیابطیس فیڈریشن کے نائب صدر اور بنگلہ دیشی ماہر امراض زیابطیس ڈاکٹر اختر حسین کا کہنا تھا کہ دنیا کے 65فیصد زیابطیس کے مریض بر صغیر پاک و ہند میں رہتے ہیں جہاں یہ بیماری وبائی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک نے اپنے وسائل اور اپنے علم و ہنر کی بنیاد پر اس وباء پر قابو پا لیا ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں نہ ہی اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی اتنی ترقی کی ہے کہ وہ ان امراض پر فوری قابو پا سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے بچاؤ کا واحد حل لوگوں کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لائیں ۔کانگریس اتوار تک جاری رہے گی ۔

متعلقہ عنوان :