لندن میں طاعون کی عظیم وبا کی وجہ دریافت

1665میں اس وبا سے مرنے والوں کے جسم میں یرسینیا پیسٹس جرثومہ موجود تھا،جرمن طبی حکام

جمعہ 9 ستمبر 2016 13:24

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔09 ستمبر۔2016ء) ڈی این اے ٹیسٹ سے اس بیکٹریا کی شناخت ہو گئی ہے جو لندن میں طاعون کی وبا کا باعث بنا تھا۔1665 اور 1666 کے درمیان برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیلنے سے تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے تھے جو اس زمانے میں لندن کی آبادی کا ایک تہائی حصہ بنتا تھا۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق لیورپول میں تعمیراتی کام کے دوران طاعون کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کا ممکنہ قبرستان دریافت ہونے کے بعد اس بات کی تصدیق کرنے میں کم سے کم ایک سال لگ گیا۔

اس مقام پر کھدائی کے دوران ایسے افراد کی 3500 قبریں سامنے آئیں۔18ویں صدی میں اس طاعون سے متعلق ایک مضمون میں شامل مصنف ڈینیئل ڈیفو کی اپنی آپ بیتی میں اس تباہ کن دور کو اہلِ لندن کے لیے ہولناک وقت قرار دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ویسے تو تمام متعدی بیماریوں کی طرح یہ طاعون بھی مختلف لوگوں کی طبیعتوں پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتا ہے۔ بعضوں پر اس نے فوراً ہی اثر دکھا دیا، اور انھیں شدید بخار، قے، ناقابلِ برداشت سردرد، کمر درد ہوا اور وہ درد کے مارے تڑپنے اور کراہنے لگے۔

لندن کے آرکیالوجی میوزیم کی اہلکار ایلیسن ٹیلفر نے بتایا کہ ہمیں اس مقام سے ساڑھے تین ہزار قبریں ملی ہیں۔ ہم وہاں پچھلے ساڑھے پانچ سال سے یہاں کام کر رہے ہیں اور ہمیں امید تھی کہ ہمیں بیشتر افراد میں طاعون کے نشانات ملیں گے۔ایک ڈھانچے سے دانت نکال کر جرمنی کے تحقیقی ادارے میں ڈی این اے کے تجزے کے لیے بھجوائے گئے۔مائیکل ہینڈرسنکا کہنا تھاکہ ڈی این کے لیے بھیجنے جانے والی بہترین چیز دانت ہیں جو کسی ٹائم کیپسول کی طرح ہیں۔

جرمنی میں ماہر امراض کرسٹین بوس نے دانت کا گودا نکال کر 17ویں صدی کے بیکٹریا کی تلاش شروع کی اور بالآخر انھیں اس مقام سے حاصل کیے گئے 20 افراد کے دانتوں سے اس کے مثبت نتائج مل گئے۔ان کا کہنا تھاکہ ہمیں ڈی این اے کے واضح نشانات ملے اور ہم اس چیز کا تعین کرنے کے قابل ہوئے کہ اس وقت مرنے والوں کے جسم میں ’یرسینیا پیسٹس‘ جرثومہ موجود تھا۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ ہم نہیں جانتے کہ لندن میں پھوٹنے والے طاعون کی وہ وبا برطانیہ میں اس بیماری کی آخری بڑی وبا کیوں تھی، اور یہ کہ ماضی میں کیا اس میں کوئی جینیاتی فرق تھا۔ ہم قدیم حیاتیات کے نمونوں سے مزید جینیاتی معلومات اکٹھا کر کے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ماہر امراضایات کرسٹین بوس اور ان کیٹیم اس ڈی این کے کی مکمل معلومات کی مدد سے اس بیماری کے پیدا ہونے اور پھیلنے کی وجوہات معلوم کریں گے۔تاہم وہ لوگ جو اس بات پر پریشان ہیں کہ کھدائی کے کام یا تحقیقات کے نتیجے میں یہ بیکٹیریا دوبارہ تو نہیں نکل آئے گا، ان کے معلومات کے لیے ہم بتاتے چلیں کہ یہ جرثومہ زمین میں زندہ نہیں سکتا۔

متعلقہ عنوان :