مقبوضہ کشمیر میں کینسر کا پھیلاؤ، ایک سال میں2465نئے کیس دریافت،وسائل کے فقدان سے دوتہائی مریض ہنوزعلاج و معالجہ کی سہولیات سے محروم

اتوار 12 اپریل 2009 16:17

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12اپریل ۔2009ء) کشمیر میں علاج و معالجہ کی گرتی ہوئی سہولیات کو بہتری بنانے کے لئے شہر کے مفصلات میں کئی مزید ہسپتال تعمیر کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح شیر کشمیر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پر مریضوں کے دبا? میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ان باتوں کا اظہار شعاعوں کے ذریعہ کینسرکا علاج کرنے والے ماہرین کی ایسوسی ایشن کے شمال ہندوستان سے تعلق رکھنے والے شعبے کی چودھویں سالانہ کانفرنس میں سابق وزیرا علیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ ایک اہم رہنمایانہ طبی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا مگر مریضوں کے زبردست دباؤ کی وجہ سے عوام کی توقعات پر پورا ترنے میں ناکام ہورہا ہے۔ حالانکہ عوام کے اندر اس ادارے کا اعتماد وموجود ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ سکمز مریضوں کی امیدہے اور وہاں جاکر وہ تمام امراض سے خلاصی کی توقع رکھتی ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالحمید زرگر نے اس موقع پر کہا کہ کینسر ایک جان لیوا بیماری ہے اوراس کے افاقہ کے لئے فوری نشاندہی اور موثر علاج بہت ضروری ہے۔

ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ میں موجودہ سہولیات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 990میں ہم نے14ہزار مریضوں کا علاج کیا اور 2008میں یہ تعداد48000تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک رہنما ہسپتال کیلئے کمزور ڈھانچے کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کینسر کے علاج کیلئے وسائل کی کمی ہے اور آج بھی دوتہائی مریض مناسب علاج سے محروم رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شعاعوں کے ذریعہ علاج کیلئے مخصوص شعبہ کی خاطر جلدہی جلد پر مشین اور سازوسامان حاصل کیاجارہا ہے۔ اس موقع پر شعبہ امراض کینسر کے سربراہ ڈاکٹر مقبول اور آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ کشمیر میں کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر سال وادی میں سرطان پھیلنے کے200سے250نئے کیسوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2008میں اس مرض میں مبتلا2465نئے مریضوں کی نشاندہی ہوئی جبکہ رواں سال میں 31مارچ تک 768نئے کیس دریافت ہوئے۔

متعلقہ عنوان :