Open Menu

Hazrat Zaid Bin Saina R.A - Article No. 1668

Hazrat Zaid Bin Saina R.A

حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 1668

اُس کی گستاخی پر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے لیکن،،،،

منگل 6 مارچ 2018

غلام محمد صدیقی:
ایک دن حضور رحمت عالم ﷺ نے اپنے حجرہ اقداس سے باہر تشریف لائے آپﷺ کے ساتھ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے ایسے میں ایک آدمی آپﷺ کے پا س آیا وہ اونٹنی پر سوار تھا اور کوئی دیہاتی معلوم ہوتا تھا اس نے آپﷺ سے عرض کیا،
یا رسول اللہﷺ فلاں قبیلے کی بستی میں میرے چند ساتھی مسلمان ہوچکے ہیں میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ان کا رزق پہلے کی نسبت زیادہ ہوجائے گا لیکن وہاں قحط سالی آ گئی ہے بارش بالکل نہیں ہورہی اور فصلیںسوکھ گئی ہیں یارسول اللہﷺ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جس طرح فراخی رزق کی بات سن کر وہ اسلام لائے ہیں اسی طرح قحط کے سبب اسلام سے نکل نہ جائیں اگر آپﷺ مناسب سمجھیں تو ان کی مدد فرمائیں کچھ غلہ ان کے لیے بھیجوا دیں،“
آپﷺ نے اس آدمی کی باتیں سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کا مطلب سمجھ گئے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ جو مال آپﷺ نے مجھے تقسیم کرنے کے لئے دیا تھا وہ تمام تقسیم ہوچکا ہے اس میں سے کچھ نہیں بچا، یہ سن کر زید بن سعنہ آگے بڑھے اور بولے،یا محمد ﷺ میرے پاس کچھ مال ہے میں وہ آپﷺ کو دے سکتا ہوں اس مال کے بدلے میں آپﷺ مجھے فلاں قبیلہ کے باغ کی اتنی کھجوریں فلاں وقت دے دیجیئے گا ان کی بات سن کر آپﷺ نے فرمایا کسی کا باغ مقرر نہ کرو میں تمہیں کسی بھی باغ کی کھجوریں دے دوں گا یہ سن کر زید بن سعنہ نے کہا،چلئے یوں ہی سہی،اس طرح حضور آقا کریمﷺ نے ان سے یہ سودا کرلیا اور انہوں نے اپنے پاس موجود سونا آپﷺ کو دے دیا آپﷺ نے وہ سارا سونا اس دیہاتی کو دیا اور اس سے فرمایا،
یہ ان کی مدد کے لیے لے جاﺅ اور ان میں برابر تقسیم کر دینا اس سودے کی مدت ابھی پوری نہیں ہوئی تھی دو تین دن باقی تھے کہ زید بن سعنہ آگئے اس وقت آپﷺ کی خدمت میں حضرات شیخین کریمین رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ و سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ار چند دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے آپﷺ نے اس وقت کسی کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اور ایک دیوار کے سائے میں بیٹھنے کے لئے قدم اٹھارہے تھے کہ زید بن سعنہ نے آگے بڑھ کر آپﷺ کا گریبان پکڑ لیا اور غصے کی حالت میں آپﷺ کی طرف دیکھا پھر نہایت بدتمیزی سے بولے اے محمدﷺ آپ میرا حق کیوں ادا نہیں کرتے خدا کی قسم عبدالمطلب کی اولاد نے تال مٹول کرنا سیکھا ہے اور اب بھی ایسا ہی نظر آرہا ہے ان کے یہ کہنے پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے ان کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور انہوں نے زید بن سعنہ کو گھور کر دیکھا پھر بولے اے اللہ کے دشمن یہ تو کیا کہہ رہا ہے اگر مجھے نبی کریم ﷺ کی مجلس کا ٰخیال نہ ہوتا تو ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔

(جاری ہے)


ادھر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غصے کا یہ عالم تھا اور ادھر رسول رحمت ﷺ زید بن سعنہ کی طرف دیکھ کر برابر مسکرائے جارہے تھے پھر آپﷺ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے فرمایا،اے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تم مجھے اچھی طرح ادائیگی کرنے کا کہتے اور انہیں نرمی سے مطالبہ کرنے کے لیے کہتے انہیں لے جاﺅ اور جتنا ان کا حق بنتا ہے وہ انہیں دو اور تم نے جو انہیں دھمکایا ہے اس کے بدلے میں انہیں بیس صاع کھجور اور دے دو،
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ انہیں لے کر چلے گئے اس وقت انہوں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا اے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں،انہوں نے کہا ،میں زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ ہوں ، یہ سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حیران ہوئے اور پوچھا وہ یہودیوں کا بڑا عالم ؟انہوں نے فوراً کہا ہاں! سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا اتنے بڑے عالم ہو کر تم نے حضور اکرم ﷺ سے ایسا سلوک کیا؟اس پر انہوں نے کہا یا عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے چہرے کو دیکھتے ہی میں نے نبوت کی تمام نشانیاں دیکھ لی تھی لیکن دو نشانیاں ایسی تھیں کہ ان کو میں نے ابھی تک نہیں آزمایا تھا ایک یہ کہ نبی ﷺ کی بردباری ان کے جلد غصے میں آجانے سے زیادہ ہوتی ہے دوسری یہ کہ نبیﷺ کے ساتھ جتنا جی چاہے نادانی کا معاملہ کیا جائے ان کی بردباری اتنی ہی بڑھی ہوتی چلی جاتی ہے میں نے ان دونوں باتوں کو اب آزمالیا ہے اے عمر فاروق رضی اللہ عنہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں اللہ کے رب اور معبود ہونے پر اسلام کے دین حق ہونے پر اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر دل سے راضی ہوں اور اس بات پر بھی گواہ بناتا ہوں کہ میرا آدھا مال محمدﷺ کی ساری امت کےلئے وقف ہے،
یہ سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،
ساری امت نہ کہو کیونکہ تم ساری امت کو دینے کی طاقت نہیں رکھتے یہ سن کر زید حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ نے کہا،اچھا بعض امت کے لئے وقف ہیں اب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے کر بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئے ،حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ حضور رحمت اللعالمین پیغمبر کونین ﷺ کے دست اقداس پر ایمان لے آئے کلمہ طیبہ پڑھا آپﷺکی تصدیق کی اور آپﷺ کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی یہ صحابی زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ بہت سے غزاوات میں رفاقت نبوی ﷺ میں شریک ہوتے رہے اور غزوہ تبوک کے لئے جاتے ہوئے راستے میں وفات پائی ،

Browse More Islamic Articles In Urdu