Open Menu

Khaleefa Chaharam Hazrat Ali RA - Article No. 1189

Khaleefa Chaharam Hazrat Ali RA

خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 1189

آپ کی گفتگو علم وحکمت اور دانائی سے بھر پور ہوتی

ہفتہ 17 جون 2017

مولانا مجیب الرحمن انقلابی:
خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔آپ کا نام علی، لقب حیدر و مرتضٰی، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ آپ کے والد ابو طالب اور حضورﷺ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں بھائی بھائی ہیں۔
آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ ماں باپ دونوں طرف سے آپ ہاشمی ہیں۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود اور چہرے سے عیاں تھیں۔ بدن دوہرا، قدمیانہ، چہرہ روشن و منور، داڑھی گھنی اور حلقہ دار، ناک بلند، رخساروں پر گوشت، غلافی اور بڑی آنکھیں، پیشانی کشادہ۔

(جاری ہے)

آپ معمولی لباس زیب تن فرماتے، آپ کا عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے۔

آپ کی گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی۔ بچپن سے ہی ﷺکی آغوشِ محبت میں پرورش پائی۔ حضورﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمتہ الزہرارضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا اور ان ہی سے آپ کی اولاد ہوئی۔
خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار اور علم و عرفان کا سمندر تھے۔
مجاہد و جانباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے، نمک، کھجور، دودھ گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے، کھیتی کی دیکھ بھال کرتے، کنویں سے پانی نکالتے، اپنے دور خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے۔گداگری سے لوگوں کو روکتے ،جو لوگ راستہ بھول جاتے انہیں راستہ بتاتے اور بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے۔
جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور چہرے پر زردی چھا جاتی، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ”اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے“۔
سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکہ میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا بدر و احد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرآت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
ہجرت کی شب حضورﷺ کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے، اور آپ نے آخری وقت میں حضورﷺکی تیمارداری کے فرائض سرانجام دیئے۔ آپ ”عشرہ مبشرہ“ جیسے خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں بھی شامل ہیں جن کو حضورﷺنے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری دی اور خلافتِ راشدہ رضی اللہ عنہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے، ، 9ھ میں جب حضورﷺ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”امیر حج“ بنا کر روانہ کیا اور ان کی روانگی کے بعد سورہ برآت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ پر حضورﷺ نے سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کو مامور کیا۔
حضورﷺنے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے کو محرومی کا سبب قرار دیا۔ آپ بہت زیادہ عبادت گزار تھے، امام حاکم رضی اللہ عنہ نے زبیر بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے کسی ہاشمی کو نہیں دیکھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ عبادت گزار ہو۔ اْمّ المئومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت زیادہ روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔
آپ بہت زیادہ سخاوت کرنے والے تھے کوئی سائل و حاجت مند آپ کے در سے خالی نہ جاتا تھا۔آپ ”بیعتِ رضوان“ میں شریک ہوئے اور ”اصحابْ الشجرہ“ کی جماعت میں شامل ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت و خوشخبری دی، حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کہ کل یہ جھنڈا میں ایسے شخص کو دونگا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسولﷺسے محبت رکھتا ہو گا پھر جب صبح ہوئی تو لوگ حضورﷺ کے پاس گئے، سب لوگ اس بات کی امید (اور خواہش) رکھتے تھے کہ جھنڈا ان کو دیا جائے مگر آپﷺ نے پوچھا کہ علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں آشوب کی ہوئی ہیں، آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو بلواؤ وہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) لائے گئے، حضورﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ اچھے ہو گئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں، پھر آپ ﷺ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا (صحیح بخاری و مسلم)

Browse More Islamic Articles In Urdu